عظملااثغولِاقوا - sohney mehrban's weblog...نہ نفع سے جس عمل ہو...

Post on 30-Nov-2020

15 Views

Category:

Documents

0 Downloads

Preview:

Click to see full reader

TRANSCRIPT

ل غوث الاعظم اقوا

شیخ سید عبد القادر جیلانی

صاحبزادہ : ترتیب و پیشکش

خ کمال مکرم گیلانی

شاہ ر سید

مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اوامر کو

ر پر راضی رہے۔ ادنی اپنائے اور نواہی سے بچے۔ تقدی

وں

ن

ت

میں ام ت

ت

درجہ مومن کا یہ ہے کہ وہ کسی حال

وں چیزوں سے پیوستہ رہنا ہی

ن

ت

سے خالی نہ ہو۔ ام ت

میراث مومن ہے۔ انھیں کا ذکر کرے اور انھیں کو

اپنے جسم و جام پر وارد رکھے۔

دنیا ای رواں دواں نہر کے مانند ہے۔ اس کا

ا ہے۔ اسی طرح

ت

رھتا چلا جاپ

بنی آدل کی پ انی روز ی

ا

ت

ا جاپ

ت

خواہشات اور شہوات کی لذتوں میں بھی اضافہ ہوپ

دنیا میں مصیبتیں، ہے۔ انھیں کی وجہ سے اس پر

آتی ہیں۔ جو کوئی اس دنیا کو نگاہ عبرت سختیاں اور بلائیں

رت میں حیات

ن

ا ہے اس کے لیے آخ

ت

سے دیکھتا اور پرکھ

ں سے محفوظ رہتا ہے۔ؤاور سکوم ہے۔ وہ بلا

جو چیز تیرے مقدر میں ہو گی وہ تجھے ضرور ملے

گی۔ اس کے لیے تجھے سواك کرنے کی ضرورت نہیں۔

ضروری یہ ہے کہ تو اپنے حاك میں پ ا ادب اور خوش

رہے۔

دك گھر کی طرح ہے۔ اس میں صرف ای ہی

۔ اللہ تعالی نے کسی کے دو

ت

رہ سکتا ہے۔ دو نہیں رہ سکت

توحید و معرفت کا مقال ہے دك نہیں بنائے ہیں۔ دك

ازك ہونے کی جگہ

ن

اور سینہ واردات و عجائبات غیبی کے پ

ہے۔

اے مومن تیرے پڑوسی کو اللہ تعالی نے جو

و یہ

ت

ا ہے۔ کیا ت

ت

و ام پر حسد کیوں کرپ

ت

نعمتیں عطا کی ہیں ت

نہیں جانتا کہ حسد ایمام کو کم زور کر دیتا ہے؟ حسد

دشمن ہیں۔ حسد نیکیوں کرنے والے اللہ کی نعمت کے

کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح لکڑی آگ کو جلا

دیتی ہے۔ جو کچھ تجھے عطا ہوا ہے وہ تیری قسمت ہے

اور جو کچھ تیرے پڑوسی کو ملا ہے وہ اس کا مقدر ہے۔

ا ہے۔

ت

ادام اور کم عقل ہوپ

ن

حسد کرنے والا پ

ی کے بغیر صرف اپنے نفس کی

لہ

کسی چیز کا حکم ا

ا گمراہی ہے۔ خواہش نفس کے

ن

خواہش سے قبوك کرپ

ا موافقت حق اور حق کی پ اس

ن

بغیر کسی چیز کو قبوك کرپ

داری ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا استقباك نیک عمل اور ام کا

ا نفاق ہے۔

ن

رد کرپ

ا ہے۔ اس کا

ت

مخلوق سے مانگنے والا بے صبر ہوپ

ا ہے۔ وہ اللہ کو نہیں

ت

اتواں ہوپ

ن

پہچانتا ایمام کم زور اور پ

لیکن جس شخص کو معرفت حق نصیب ہو جاتی ہے وہ

ا۔ اللہ اس کے ایمام اور یقین میں قوت

ت

سواك نہیں کرپ

ا رہتا

ت

پیدا کر دیتا ہے اور اس کی معرفت میں اضافہ ہوپ

ہے۔

ا تو قبو اا اللہ ری کسی دد کو راا

ت

ك نہیں کرپ

اور سواك اس سے آزردہ خاطر نہ ہو۔ ری ددئیں

رت میں کال آئیں گے۔

ن

رے لیے دنیا و آخ

اہوں کی معافی اور آئندہ کی

ن

اللہ سے گزشتہ گ

رمانیوں سے

ن

اف

ن

صحت کے سوا کچھ اور نہ طلب کرو۔ پ

ا کی سختی سے بچنے اور نعمت و عطا کے شکر لمحفوظ رہنے، ب

کرنے کے سوا اللہ سے کچھ اور نہ مانگو۔ اللہ نے تمہیں

اکر رہنے کی دد مانگو۔ جس حاك

میں رکھا ہے اس پر ش

تمہیں کیا معلول کہ رے لیے کیا بہتر نہیں ہے۔

تصوف کی بنیاد آٹھ خصائص پر ہے۔ سخاوت

راہیم جیسی، رضا حضرت اسحاق جیسی، صبر حضرت ای

ا حضرت ایوب ارات و مناجات حضرت زکرپ

جیسا، اش

ی ح

حضرت

ت

جیسی، صوف کا پہننا جیسی، غر

ی حضرت موسی

ع

حضرت

ت

جیسی اور فقر جیسا، سیا

ےصطف

م

ر ہمہ پیغمبراں۔ صلى الله عليه وسلمحضرت محمد جیسا۔ سلال ی

ت

کا عمل ہے۔ تقوی دو ساع

ت

زہد ای ساع

کا عمل ہے۔ اللہ تعالی کی معرفت ابدی عمل ہے۔

تواضع عبادت کا نچوڑ ہے، رحمت کا دروازہ ہے۔

ر کوئی شے نہیں۔ اس کے لیے نصیحت میں اس

ت

ر ی سے ی

مخلوق ای ہو جاتی ہے۔

اللہ کے بندوں کے لیے غیبت ہلاکت اور آفت

ہے مگر اللہ زپ ام اور قلب کی حفاظت کرنے والوں کی

ا ہے۔

ت

رماپ

ن

مدد ف

ا

ت

مجاہدے میں پڑ جاپ

نفس شر ہی شر ہے مگر سیا

ا ہے تو خیر ہی خیر

ت

ا ہے اور ہے اور مطمئن ہو جاپ

ت

ہو جاپ

ووں کو چھوڑ دینے

ت

تصعمع

تمال طاعتوں کے بجا لانے اور

میں موافقت کرنے لگتا ہے۔

اوك اپنے نفس کو نصیحت کرو۔ اس کے بعد

ا۔ خاص اپنے نفس کی

ن

دوسرے کے نفس کو نصیحت کرپ

رے

ت

ی

اصلاح اپنے ذم لازل سمجھو اور سیا

دوسروں کی اندر کچھ بھی اصلاح کی ضرورت پ اقی ہے

جھکو۔

ت

طرف م

اپنے ماك سے جو کچھ ہو سکے فقیروں کی غم

ہو تھوڑی سی

تت

خواری کرو۔ کچھ بھی عطا کرنے کی طاق

پ ا بہت سی تو سائل کو واپس نہ کرو۔ عطا کو محبوب سمجھنے

میں حق تعالی کی موافقت کرو اور شکر ادا کرو کہ اس نے

ا اور عطا پر قدرت بخشی۔تم کو اس کا اہل بناپ

کھر درے اور موٹے کپڑے پہننے اور روکھا

ام قلب کے

ام نہیں ہے، ش

سوکھا کھانے میں کوئی ش

زہد اختیار کرنے میں ہے۔

ازك

ن

وہ علم جو عمل کے ساتھ ہو گا، تجھ کو علم پ

و اس حکم پر

ت

ت

کرنے والے علیم کا مقرب بنائے گا۔ سیا

ے علم کا چشمہ تجھ عمل کرے گا جو پہلا علم ہے تو دوسر

پر جاری ہو جائے گا اور تجھے چشمے بہتے ہوئے حاصل

ر و پ اطن جو تیرے قلب ہوں گے یعنی حکم و علم اور ظاہ

کو بھر دیں گے۔

قدرت بنا۔ جس نے صبر کیا صاسیا

اپنے کاروپ ار اور مشاغل میں توحید، شریعت اور

آفتاب تقوی کے آفتاب کے ساتھ رہو کیوں کہ یہ

تمہیں خواہش اور نفس اور شیطام اور مخلوق کو شری

دا سمجھنے کے جاك میں پھنسنے سے محفوظ رکھیں گے اور

ن

خ

رفتار میں عجلت کرنے سے پ از رکھیں گے۔

کاہلی نہ کرو۔ کاہل ہمیشہ محرول رہتا ہے اور پشیمانی

اس کی ادم میں رہتی ہےاپنے اعماك کو بہتر ۔کی رس

اکہ حق ؤبنا

ت

رماپ

ن

رت کی سخاوت ف

ن

ئے۔ تعالی تم پر دنیا و آخ

حق تعالی کے ساتھ تیری خلوت صحیح ہو

سیا

ار اور قلب پ اکیز

ہ ہو جائے جائے گی تو تیرا پ اطن سرش

نگاہ نگاہ عبرت بن جائے گی۔ تیرا قلب فکر یگا۔ تیر

اور اندروم حق تعالی واصل ح بن جائے گا اور تیری رو

ہو جائے گا۔

ا عذاب اور حجاب ہے۔

ن

دنیا کے متعلق فکر کرپ

رت کے متعلق فکر علم اور قلب کی حیات ہے۔

ن

آخ

اعماك خلوتوں ہی میں ہوتے ہیں، جلوتوں میں

ا

ن

ر کرپ رائض کے کہ ام کا ظاہ

ن

نہیں ہوتے۔ بجز ف

ضروری ہے۔

کرو۔ اس کو چھوڑ کر ام

ت

دم

ن

اللہ تعالی کی خ

میں پ اد

ت

دم

ن

اہوں کی خ

تمہیں مشغوك نہ ہو جوش

ہیں نہ نفع۔ وہ تمہیں کیا دیں گے؟

ت

نقصام پہنچا سکت

کوئی ایسی چیز دے دیں گے جو رے مقسول میں

نہیں۔ کیا انھیں یہ قدرت حاصل ہے کہ تمہیں ایسی

چیز دے دیں جو اللہ تعالی نے رے حصے میں نہیں

رکھی؟

ا کی ہیں۔ اللہ تعالی نے بیماری اور دوا دونوں پید

اہوں

ن

دوا ہے۔ ظلم، بیماری اور گ

ت

اہ بیماری اور طاع

ن

گ

ر تم پر اس

ا دوا ہے۔ دوا کا پوارا ای

ن

کے نشے سے توبہ کرپ

مخلوق کو

ہو گا سیا

تت

دا کر کے وق اپنے قلب سے خ

اس گے ؤ قلب کو اپنے رب سے ملا

ن

اور اس کی جاغر

رھو گے کہ قلب آسمام میں ہو اور

ری روح طرح ی

اور را بدم زمین پر۔

دفیت اس میں ہے کہ دفیت کی طلب چھوٹ

رک ہو

ت

جائے۔ تونگری یہ ہے کہ تونگر بننے کی طلب ی

جائے۔ دوا یہ ہے کہ دوا کی طلب جاتی رہے۔ ساری دوا

رک اور جملہ

ت

دك سے اسباب کو قطع، ارپ اب کو ی

معاملات کو حق تعالی کے حوالے کر دینے میں ہے۔

حید اور زہد بدم اور زپ ام پر نہیں ہوتے۔ تو

توحید قلب میں ہوتی ہے اور زہد بھی قلب میں، تقوی

بھی قلب میں، اللہ عزوجل کی محبت بھی قلب میں اور

ا ہے۔

ت

رب بھی قلب میں ہوپ

ت

اس کا ف

تم اس شخص کی صحبت اختیار کرو گے جو علم

سیا

را ہے تو یہ صحبت رے

لیے و تقوی میں تم سے ی

ایسے کی صحبت اختیار کرو گے جو

رکت ہو گی اور سیا ی

را ہو مگر اس کے پ اس علم نہ ہو نہ تقوی تو

تم سے عمر میں ی

یہ صحبت رے لیے منحوس ہو گی۔

تم حق تعالی سے معاملہ کرو گے تو ری

سیا

کھیتیاں پھیلیں گی۔ رے درختوں پر پتے نکلیں

اخیں پھوٹیں گی۔

پھل پھوك بھی پیدا ہوں گے۔ ش

رے کال سے منع کرو۔ گے۔ نیک کال کا حکم کرو اور ی

ر گز فلاح دنیا سے کچھ بھی محبت رکھو گے تو ہ

!نصیب نہ ہو گی۔ اے حق تعالی کی محبت کے مدعی

رت پ ا حق تعالی کے سوا کسی اور چیز کو سیا

ن

آخ

ت

ی

ر گز تجھے فلاح حاصل نہیں گی۔ ہو محبوب سمجھے گا تو ہ

رھ !اے پ اشندگام بغداد

رے اندر نفاق ی

رھ گیا ہے۔ اخلاص کم ہو گیا ہے۔

اقواك اعماك کے ی

عمل کے بغیر کسی کال کا نہیں بلکہ وہ گئے ہیں۔ قوك

رب حق کا راستہ

ت

ہے نہ کہ ف

ت

تح

۔

رت کی بھلائی

ن

و دنیا اور آخ

ت

چاہتا ہے اے دلم اا ت

اور لوگوں کو تعلیم دے اور اے تو اپنے علم پر عمل کر

رت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے ماك

ن

و دنیا اور آخ

ت

تونگر اا ت

سے فقیروں کی غم خواری کر۔

اا تم فلاح چاہتے ہو تو اپنے دك سے مخلوق کو

ور نہ ام سے مانوس ہو۔ا ؤنکاك دو۔ نہ ام سے خوف کھا

کا اللہ والوں کا شغل سخاوت اور مخلوق کی را

ت

سیا

ا ہے وہ لوٹنے والے ہیں اور خوب لٹانے

ن

سامام کرپ

والے ہیں۔ حق تعالی اور اس کی رحمت کو لوٹتے ہیں اور

فقراء و مساکین پر جو تنگی میں مبتلا ہیں، لٹا دیتے ہیں۔ جو

رض ادا

ت

ر ہیں ام کا ف

ن

رض ادا کرنے سے دخ

ت

رض دار ف

ت

ف

اہام دنیا۔

اہ وہی ہیں نہ کہ پ ادش

اہ کرتے ہیں۔ پ ادش

پ ادش

دنیا لوٹتے ہیں لٹاتے نہیں۔

ر بعد یہ پ ازار پ الکل خالی یہ دنیا پ ازار ہے۔ ذرا دی

ہو جائے گا۔ رات ہو جائے گی تو سارے پ ازار والے

د و ری

ن

چلے جائیں گا۔ کوشش کرو کہ تم اس پ ازار میں خ

ا ہو تو ایسی

ن

دپ ری

ن

نہ کرو۔ خ

تن

روسیا

ن

دو جو کل پ ازار ف ری

ن

چیز خ

رت میں رے لیے

ن

فائدہ مند ہو۔ آخ

موت ہے۔ جو شخص

ت

علم حیات ہے اور جہال

دلم اور اپنے علم پر دمل اور عمل میں مخلص اور

ر ہو وہ اپنے پروردگار دوسروں کو تعلیم دینے میں صای

سے جا ملتا ہے۔ اس کے لیے موت نہیں کیوں کہ سیا

نفس سے آزاد ہو گیا تو علم و عمل اور اخلا

ت

ق کی بہ دول

وہ اپنے پروردگار سے جا ملا۔

کوئی اس

اقواك و افعاك کا مغز اخلاص ہے۔ سیا

ا ہے اور چھلکا

ت

ا مغز چھلکا رہ جاپ ا ہے تو ب

ت

سے دری ہوپ

آگ سے سوا کسی اور مصرف کا نہیں۔

حلاك غذا کھانے کی سعی کر کہ وہ تیرے قلب کو

ر لے منور کر اریکیوں سے پ اہ

ت

دے گی اور دك کو اس کی پ

آئے گی۔

، متوکل اور وثوق رکھنے

ت

ت

اا تم چاہتے ہو کہ مت

ر خوبی کی بنیاد والے بنو تو صبر کو ضروری سمجھ لو کہ صبر ہ

ہے۔

اختیار کرے گا

ت

بندہ جتنا بھی اللہ کے سامنے ذل

جھکے گا وہ اسی قدر اس کو عزت بخشے گا اور جس قدر بھی

وہ اسی قدر اس کو رفعت عطا کرے گا۔ وہی عزت دینے

دینے والا ہے۔ وہی بلند کرنے والا

ت

والا ہے۔ وہی ذل

اور وہی پست کرنے والا ہے۔ وہی توفیق دینے والا اور

وہی آسانی پیدا کرنے والا ہے۔ اا اس کا فضل نہ ہو تو

ر گز پہچام نہ سکیں۔ ہم اس کو ہ

ہیں جن میں داخل ہوئے بغیر چارہ دو دروازے

دنیا اور ٴخالق۔ دروازہ ٴمخلوق اور دروازہ ٴنہیں۔ دروازہ

رت۔ پہلا مخلوق کا دروازہ اور دوسرا حق تعالی ٴدروازہ

ن

آخ

و

ت

ت

ت

ی

انہ کا دروازہ۔ سیا

دروازہ سے نہ گزر پہلےش

جائے گا دوسرا دروازہ تجھ کو نظر نہ آئے گا۔

اع کرو۔ بدعتی

ت

بنو۔ موافقت کرو۔ ات

ت

م

رمام نہ بنو۔ مخلص بنو

ن

ا ف

ن

ابعدار بنو۔ پ

ت

مخالفت نہ کرو۔ پ

د بنو۔ اس کے در سے

ن ن

مشرک نہ بنو۔ حق تعالی کے موخ

نہ ٹلو۔ جو کچھ مانگنا ہے اسی سے مانگو۔ کسی اور سے نہ

مانگو۔ اسی سے مدد چاہو۔ کسی غیر سے مدد نہ چاہو۔ اسی

وسا نہ کرو۔پر بھروسا کرو۔ کسی اور پر پھر

محبت پردے، ستر، حیا، وجود اور مخلوق پر نظر

ا کرتی ہے کیوں کہ رام کر دپ کرنے کی دیواروں کو وی

محبت کاملہ میں نہ اپنی خبر رہتی ہے نہ غیر کی۔

مومن کا غصہ حق تعالی اور اس کے رسوك

ا ہے نہ کہ اپنے نفس اور خواہش، صلى الله عليه وسلم

ت

کی خاطر ہوپ

ا اپنی دنیا کی خاطر۔ نہ وہ کسی سے حسد اپنی طبیعت پ

ر و قانع ہونے کی وجہ سے خوش ا ہے اور نہ صای

ت

کرپ

ا ہے۔

ت

راع کرپ

نن

حالوں سے ام کی خوش حالی پر ی

ا ہے نہ عمل

ت

رماپ

ن

ا عمل کو قبوك ف حق تعالی نہ قوك ب

ا اخلاص کو۔ وہ کوئی چیز بھی ہو اس کی کتاب اور اس ب

کے موافق نہ ہو، قبوك نہیں صلى الله عليه وسلمکے پیغمبر

تن

کی س

رمائے گا۔

ن

ف

اللہ تعالی اور اس کی پ اد سے غفلت دلوں کی

موت ہے۔ تم میں سے جو شخص اپنے قلب کو زندہ رکھنا

ام و

اد اور اس کی ش چاہے تو اس کے لیے حق تعالی کی پ

رمانے پر نظر عظمت اور اس کے مخلوق

ن

رف ف

ت

میں ت

رکھنا قائم رکھے۔

ا ضروری ہے پ الخصوص

ن

آزمائش و امتحام ہوپ

دعوی کرنے والوں کا۔ اا آزمائش و امتحام ہو تو بہتیری

مخلوق ولی ہونے کا دعوی کرنے لگے۔

تیرا شیطام، تیری خواہش، تیری طبیعت اور

رے ہم نشیں س تیرے دشمن ہیں۔ ام تیرے ی

بچ کہ کہیں تجھ کو ہلاکت میں نہ ڈاك دیں۔ سے

اکہ تجھ کو معلول ہو کہ اپنے رب کی

ت

علم سیکھ پ

ا چاہیے کیوں کہ جاہل کی کوئی

ن

عبادت کس طرح کرپ

بھی عبادت قبوك نہیں ہوتی۔

جس چیز نے تمہیں اللہ تعالی کی معرفت اور اس

سے دور کر رکھا ہے وہ دنیا کے

تن

کے اولیاء کی شناسیا

ساتھ ری محبت، دنیا کی حرص، اس میں اضافہ اور

اد کرو اور رت کو پ

ن

اسے جمع کرنے کی خواہش ہے۔ آخ

دنیا سے دور رہو۔

جو شخص اللہ تعالی کی قضا و قدر پر رضا کا خواہاں ہو

اد رکھے کیوں کہ اس موت کو پ

تت

ر وق اسے چاہیے کہ ہ

و آفات کو ہلکا کر دیتا

اد رکھنا مصاغر ہے۔کا پ

راہ طریقت نفس اور خواہش نفس کے ساتھ

طے نہیں ہوتی بلکہ شریعت اور اس کی پ ابندی کرنے،

ام تسلیم و

رک کرنے اور ش

ت

ر ی

ن

، ور اور کر و ف

تت

طاق

توقف اختیار رضا قبوك کرنے اور جلد پ ازی چھوڑ کر

کرنے سے طے ہوتی ہے۔

ا

ت

ہے وہ جس شخص کا اسلال دك نواز اور مستحکم ہوپ

افع سے رو

ن

ا ہے اور عمل غیر پ

ت

افع پر توجہ کرپ

ن

عمل پ

ا اہل

ن

افع میں مشغوك ہوپ

ن

اداں رہتا ہے۔ عمل غیر پ

پ اطل اور بو الہوسوں کا کال ہے۔

جو شخص فلاح کا طال ہو اسے چاہیے کہ مشائخ

کے قدموں کے نیچے کی خاک بن جائے۔ کوم سے

اور مخلوق کو چھوڑ مشائخ کی؟ وہ مشائخ جنہوں نے دنیا

س کو الوداع کہہ چکے ام کی

ت

رش ی

ن

دپ ا۔ عرش سے ف

ر حاك میں اپنے پروردگار کے ساتھ ہے۔ ہستی ہ

و

ت

ت

ر خوبی کی بنیاد ہے سیا اللہ تعالی کی معرفت ہ

کرے گا تو وہ تجھے اپنی

ت

ادہ اطاع اللہ تعالی کی زپ

رمائے گا

ن

۔معرفت عطا ف

اور رپ اکاری کی محنت منافقت، طراری، لسانی

دھے

ن

سے چہرہ زرد کر لینے، کپڑوں کو پیوند لگانے، موی

طاری کرنے سے تجھ کو اللہ تعالی کا

ت

ت

سیکڑنے اور رق

رب حاصل نہیں ہو گا۔ یہ ساری پ اتیں تیرے نفس،

ت

ف

دا سمجھنے اور ام سے

ن

خ تیرے شیطام، مخلوق کو شری

دنیا کمانے کی ہوس کے س سے ہیں۔

لی کا راستہ وہ راستہ ہے جس میں نہ مخلوق حق تعا

ہے نہ اسباب۔ نہ اپنی واقفیت ہے نہ کوئی سمت نہ

دروازہ۔ نہ اس میں کسی مخلوق کی ہستی ہے۔

رت کے ساتھ اور

ن

جسم دنیا کے ساتھ، دك آخ

ا ہے

ت

ا ہے۔ پ اطن حاکم ہوپ

ت

پ اطن مولی کے ساتھ ہوپ

ہ پر،

ن

ن

معمط

ا ہے نفس

ت

نفس قلب پر، قلب حاکم ہوپ

اائے جسم حاکم

ن

صعا ہے جسم پر اور ا

ت

ہ حاکم ہوپ

ن

ن

معمط

ا ہے

ت

بندہ اس میں کامل ہو جاپ

ہوتے ہیں مخلوق پر۔ سیا

قدل ہوتے ہیں اور ر رشتے اس کے زی

ن

نس اور فتو جن و ا

ا ہے۔

ت

رب پر بیٹھا ہوپ

ت

وہ مسند ف

داوندی اور

ن

ایسے شیخ کی صحبت اختیار کرو جو حکم خ

اکہ وہ تمھیں ام کا راستہ علم لدنی سے واقف

ت

ہو پ

بتائے۔ جو فلاح دہندہ کو نہیں دیکھے گا وہ فلاح بھی نہیں

پ ائے گا۔

عزیمت مردوں کے لیے ہے کیوں کہ وہ

ا ہے۔ رخصت

ن

اک، دشوار اور تلخ شے کا اختیار کرپ

ن

خطرپ

بچوں اور عورتوں کے لیے ہے اس لیے کہ اس میں

ادہ ہے اور ضعیفوں کے لیے زپ

ت

ہی سہول

ت

سہول

مناس ہے۔

پر عمل نہیں کیا تو

ت

بنی اسرائیل نے تورغر

سیا

ا اور رما کر پتھر بنا دپ

ن

حق تعالی نے ام کے دلوں کو مسخ ف

اا دے دپ ا۔ اسی طرح اے اپنے دروازے سے دھک

رآم پر عمل نہیں کرو گے اور اس کے اا !محمدیو

ت

تم ف

ھاارے قلوب

م

ت

کو احکال کو مضبوط نہیں تھامو گے تو وہ

بھی مسخ کر دے گا اور تمھیں اپنے دروازے سے دور

کر دے گا۔

و مخلوق کےك یے علم سیکھے گا تو مخلوق کے

ت

ت

سیا

اللہ کے لیے علم سیکھے گا تو

لیے عمل بھی کرے گا۔ سیا

دنیا کے لیے علم

اسی کے لیے عمل بھی کرے گا۔ سیا

حاصل کرے گا تو دنیا ہی کے لیے عمل کرے گا اور

رت

ن

رت کے لیے علم حاصل کرے گا تو آخ

ن

آخ

سیا

اخوں کا مد

ا کے لیے عمل کرے گا۔ ش

ت

ار جڑوں پر ہوپ

ہے۔ جیسا کرے گا ویسا ثمر پ ائے گا۔

ا وعظ محض زپ ام سے ہے تیر !اے مولوی

قلب سے نہیں ہے۔ صورت سے ہے معنی سے نہیں

ا ہے جو

ت

ہے۔ صحت مند قلب اس وعظ سے دور بھاگ

تت

کے وق

نن

زپ ام سے ہو قلب سے نہ ہو۔ ایسا وعظ سن

ہوتی ہے جیسی پنجرے کے ا

ت

ر پرند نداس کی ایسی حال

اور مسجد کے اندر منافق۔

مومن کی خوشی ایمام و یقین کی قوت اور قلب

پہنچ جانے پر ہوا کرتی ہے۔ ٴکے دروازہ

ت

رب حق ی

ت

ف

اہ وہی ہیں

رت کے پ ادش

ن

اچھی طرح سن لو کہ دنیا اور آخ

جو اللہ تعالی کے درف اور اس کے لیے عمل کرنے

والے ہیں۔

اع کرو۔ ام اقواك اور افعاك میں

ت

اللہ والوں کی ات

رب حاصل

ت

کے خادل بنو اور اپنی جام و ماك سے ام کا ف

کرو۔ جو کچھ بھی تم ام کو دو گے وہ رے لیے ام

کے دم وہ اسے

ت

ا رہے گا۔ کل قیام

ت

کے پ اس جمع ہوپ

رے حوالے کر دیں گے۔

س چیزیں اسی سے طلب کرو جو چیز کا خالق

رچ کر دو۔ اللہ ہے۔ اپنا س کچھ اسی

ن

کی طلب میں خ

رب کی طلب میں اپنی

ت

والوں نے اپنے رب کے ف

رچ کر دپ ا ہے۔ انہیں معلول ہو گیا کہ وہ

ن

جانوں کو بھی خ

ا

ن

رچ کرپ

ن

دا اپنی جانوں کا خ

ن

کیا چیز طلب کر رہے ہیں ل

ام پر سہل ہو گیا۔ جو سمجھ لیتا ہے کہ وہ کیا چیز طلب کر

ر

ن

ا پڑے اس پر سہل ہو رہا ہے تو اسے جو کچھ بھی خ

ن

چ کرپ

ا ہے۔

ت

جاپ

اوك خلوت ہے اس کے بعد جلوت۔ اوك

گونگا بننا، اس کے بعد گوپ ائی۔ اوك آقا کی طرف توجہ

ا۔

ن

ا، اس کے بعد غلال پر متوجہ ہوپ

ن

کرپ

حلاك کھانے سے اپنے قلب کی صفائی کر۔ یقیناا

حق تعالی کی معرفت حاصل ہو جائے گی۔

چاہتے ہو کہ رے سامنے کوئی دروازہ اا تم

ر بھی بند نہ رہے تو اللہ عزوجل سے ڈرتے رہو، یہی ہ

دروازے کی کنجی ہے۔

اپنے اور اس کے درمیام سے مخلوق کے

واسطوں کو اٹھا دو۔ را ام واسطوں کے ساتھ پڑا رہنا

، سلطنت، تونگری اور ہوس ہی ہوس ہے۔

ت

حکوم

سوا کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔عزت حق تعالی کے

ل کی حقیقت یعنی ۔ اسلاؤاسلال کی شرائط بجا لا

حق تعالی کے سامنے ادم جھکانے اور س کچھ اس

کے حوالے کر دینے کو اختیار کرو۔ آج تم مخلوق کی غم

خواری کرو کل کو حق تعالی اپنی رحمت سے ری غم

رمائے

ن

گا۔خواری ف

ر وہ شخص جو حق تعالی کے حکم کی عظمت نہ ہ

کرے اور اللہ کی مخلوق پر شفقت نہ کرے وہ اللہ سے

دور ہے۔

کے پ انی

ت

کی پرورش جہال

تن

غفلت کے درسیا

فکر کے پ انی

تن

سے ہوتی ہے۔ بیداری و معرفت کا درسیا

کے پ انی

ت

ندام

تن

ا ہے۔ توبہ کا درسیا

ت

پ سے پرورش پ ا

کی نشو

تن

و نما سے پھلتا پھولتا ہے اور محبت کے درسیا

معرفت کے پ انی سے ہوتی ہے۔

ہے اور وہ روح تیاعماك کے لیے بھی روح ہو

اخلاص ہے۔

وہ علم جس پر عمل نہ ہو، وہ عمل جس سے نفع نہ

ہو اور وہ زندگی جو فائدہ نہ پہنچائے ایسی ہے جیسے وہ مکام

ام نہ

ن

رانہ جس کا پتا ن

نن

نہ ہو اور وہ خ

تن

جس میں سکوغر

ا نہ جائےملے اور وہ ا جو کھاپ

ن

۔کھاپ

۔ ممنوع سے پ از رہو۔ تکلیفوں حکم کی تعمیل کرو

رب حاصل کرو

ت

پر صبر کرو اور نوافل کے ذریعے سے ف

ال بیدار اور کار گزر رکھ دپ ا جائے۔

ن

اکہ را پ

ت

پ

صبر حق تعالی کی قضا و قدر کے موافقت کرنے کا

ال ہے۔

ن

پ

ا ادب کے

ن

خلاف ہے کہ حاکم اللہ سے سواك کرپ

ا مناس ہے البتہ

ن

ا چھوٹوں کے لیے پ

ن

رمائش کرپ

ن

سے ف

دا

ن

ر ہے ل

ام غلامی ظاہ

دد کی اجازت ہے کہ دد سے ش

ر ہے۔

ن

یہ جای

ا ہے اس کے

ت

جو شخص حق تعالی سے واقف ہو جاپ

ر چیز رت اور حق تعالی کے سوا ہ

ن

قلب سے دنیا اور آخ

ہو جاتی ہے۔

غاغر

معرفت کے در پے رہو کیوں کہ وہ حق تعالی کی

ر خوبی کی بنیاد ہے۔ ہ

ایمام مجموعہ ہے قوك اور عمل کا۔ ایمام اس

تم

ت

ی

مقبوك اور مفید نہیں ہو گا سیا

ت

ی

تت

وق

رمانیوں کا

ن

اف

ن

ووں، لغزشوں اور اللہ تعالی کی پ

ت

تصعمع

ارتکاب کرتے رہو اور اس پر اڑے رہو گے۔

ام توبہ کرنے میں نہیں

بلکہ توبہ کے قائم ش

ام نہیں ہوتی،

لگانے میں ش

تن

رہنے میں ہے۔ درسیا

و

اخوں کے پ

جمنے، ش

تن

ام درسیا

ٹنے اور پھل لانے ش

میں ہوتی ہے۔

ازك کرنے

ن

رآم پ

ت

ا تجھ کو ف

ن

رآم پر عمل کرپ

ت

ف

پر عمل محمد

تن

صلى الله عليه وسلموالے کے پ اس پہنچا دے گا اور س

کے حضور لے جائے گا۔

خالص اللہ کے لیے عمل کرو نہ کہ اس کی نعمتوں

امل ہو جو

اس کی ذات کے کے لیے۔ ام لوگوں میں ش

اکہ طال ہیں۔

ت

تم بھی اس کی ذات کے طال بن جاؤ پ

رما دے۔

ن

وہ تمہیں بھی کچھ عطا ف

دنیا کے عیوب کو قلب کی آنکھوں سے اا

ر کر سکو گے اور اا سر دیکھو گے تو انھیں قلب سے پ اہ

کی آنکھوں سے دیکھو گے تو دنیا کے عیوب قلب سے

ر کرنے کے بجائے ام کی آرائش میں مشغوك ہو جا ؤپ اہ

اور انھیں اپنے قلب سے نکالنے اور زہد اختیار گے

کرنے پر قادر نہ ہو سکو گے۔

حق تعالی کی معرفت دك میں ہوا کرتی ہے،

ہوتی کتابوں میں نہیں ہوتی۔ اس کی طرف سے حاصل

ہے۔ مخلوق کی طرف سے نہیں ہوتی۔ حق تعالی کی

معرفت اس کے حکم پر عمل کرنے کے بعد حاصل

ہوتی ہے۔

ا ہے اس کے

ت

جو شخص اللہ تعالی سے واقف ہو جاپ

رت س

ن

ر چیز دنیا اور آخ قلب سے اللہ تعالی کے سوا ہ

ہو جاتی ہے۔

غاغر

کے جو شخص حق تعالی اور اس کے نیک بندوں

رت میں رفعت

ن

سامنے جھکتا ہے حق تعالی اسے دنیا و آخ

کر کے ام

ت

رداس دائیں ی

ن

تو عوال کی ای

بخشتا ہے۔ سیا

کرے گا تو حق تعالی تجھ کو ام پر رفعت بخشے

ت

دم

ن

کی خ

گا اور تجھ کو ام کا سردار بنا دے گا۔

ابن آدل صحیح القلب

ا ہے تو اپنے سیا

ت

بن جاپ

ا ہے۔ اس کا گم جملہ احواك میں حق

ت

تعالی کے ساتھ ہوپ

ا ہے۔

ت

ا بھی اللہ سے اور اس کا وجود بھی اللہ سے ہوپ

ن

ہوپ

گے۔ سچے کی ؤسچائی اختیار کرو۔ اسی سے فلاح پ ا

ر ہمت آسمام میں بلند رہتی ہے۔ وہ نہ امرا کی بد حالی ظاہ

ا ہے۔

ت

ا امید ہوپ

ن

ا ہے نہ اصلاح سے پ

ت

کرنے سے ڈرپ

ی عمر تیر !تعمیر کرانے والے اے محل اور مکام

کے بغیر

ت

ن

دنیا کی عمارت میں ختم ہو رہی ہے۔ نیک ن

حہ ہی ہے۔ل صا

ت

ن

کوئی چیز نہ بنا کہ دنیا میں تعمیر کی بنیاد ن

اک

اپنی ساری حالتوں میں تقوی دین کی پوش

ہے۔

ہوں، نیکوکار ہوں، محتاط

ت

ت

رے وہی ہیں جو مت

ی

ہوں اور عمل میں اخلاص والے ہوں، علم پر دمل

ہوں۔

جاہل کی زپ ام اس کے قلب کے آگے ہے اور

عقل دلم کی زپ ام اس کے قلب کے پیچھے صاسیا

ہوتی ہے۔ جاہل قلب سے پوچھے بغیر بولتا ہے اور دلم

پہلے قلب سے پوچھتا ہے اور بعد میں بولتا ہے۔

جاتی مشائخ کی صحبت دنیا کے لیے نہیں اختیار کی

رت کے لیے کی جاتی ہے

ن

۔بلکہ آخ

کا

ت ن

ا ہے وہ نہ ج

ت

جو شخص حق تعالی کا طال ہوپ

ا ہے بلکہ صرف اس

ت

ا ہے نہ دوزخ سے ڈرپ

ت

خواہاں ہوپ

رہتا

ن

کی ذات کو چاہتا ہے اور اس کی دوری سے خائ

ہے۔

تیرا حضور قلب موت اور موت کی سچی

کے بغیر صحیح نہیں ہو سکتا۔

ت

پ اداس

ا۔

ت

اللہ سے ڈرو۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرپ

۔لوگ خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں

کا دشمن سے نہ کرو۔

ت

اپنے نقصام کا ذکر دوس

ا ہے۔ تہمت نہ لگاؤ بلکہ

ن

ا اللہ پر تہمت لگاپ

ن

اس کا ذکر کرپ

ر کرو۔ اللہ کی نعمت سے کوئی کب بھلائی اور شکر ظاہ

خالی رہ سکتا ہے؟

ت

ی

ر نیکی اور احسام کی اصل ہے۔ صبر سے صبر ہی ہ

ا ہے۔

ن

ی کو خوا ہوپ

ہ ل

مراد رضائے ا

ا ہے تو اسے

ت

رکھ

ت

اللہ تعالی کسی کو دوس

سیا

ا ہے اور اا وہ اس امتحام میں صبر

ت

امتحام میں مبتلا کرپ

رما دیتا ہے۔

ن

ا ہے تو اللہ تعالی اس کا رتبہ بلند ف

ت

کرپ

ا اللہ اری زپ انوں پر !پ ارے ہاتھوں اور ہ

ہ

کا ہل بنا

ت

رما اور ہم کو اپنے لطف و عناغر

ن

نیکیاں جاری ف

لے۔ آمین

ا ہے، پ اطن کو پ اطن،

ت

قلب کو قلب خطاب کرپ

خلوت کو خلوت، معنی کو معنی، مغز کو مغز اور حق کو

حق۔

top related