the uniqueness of jesus christ - muhammadanism · web viewپہلے کا اعتراض کا جواب...

77
م ی ح ر ل ا نٰ م ح ر للہ ا مہ الس ب و ہ ے ر ڑ ک پ ے سُ ے ا ہ ی ھ چ ا و ج) ماؤ- و ا.ر ک وں2 ت ا پ ب س( - ف ی ر: ش ل= ی ج- ن ا۱ وں ی ک ی- لن س ھ2 ت۵ : ۲۱ ) The Uniqueness of The Uniqueness of Jesus Christ Jesus Christ By Allama Imant Khan ح ی س م ا- دپ یّ س ح ی س م ا- دپ یّ س ی ک ی ک2 ب ص- خ: ش ی- ن ا: لاپ2 ب ص- خ: ش ی- ن ا: لاپ ہ- ف- ن ص م ی ۔اے ن اں- خ2 ت- نمامہ ا لا عUrdu September.30.2005 www.muhammadanism.org ن می ا- ض مِ 2 ب س ر ہ- ف : مار ش ر مب- ن ن می ا- ض م حہ- ف ص۱ اب لا پ ہ پ اں ی م ہ- ف لط- ع2 ق ل ع2 ن م ے ک) 2 ب ع ا: اش( ی ک2 ب ی ج ی س م5 ۲ اب را پ ش دؤ- رار ی کا2 ق ڑ2 ت ی ک2 ب ی ج ی س م۱۳ ۳ اب را پ س ی2 ت2 ب ی ص- خ: ش ی- ن ا: ح لاپ ی س م ا- دپ ی س۱۶ ۴ اب ھا پ2 ت و جٰ وے ع ی د- ن ا: ے لاپ ک ح ی س م ا- دپ ی س۸۱ ۵ اب واں پ چ- ن ا پ ن ل خ ال ی خ- ن ا: لاپ ح کا ی س م ا- دپ ی س۱۳۴ ۶ اب ا پ ی ھ چ۱۳۹

Upload: others

Post on 04-Mar-2020

9 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

من الرحیم بسہ اللہ الرح

ااسےپکڑے رہو آازماؤ جو اچھی ہے سب باتوں کو ( ۲۱: ۵تھسلنیکیوں ۱انجیل شریف )

The Uniqueness of The Uniqueness of

Jesus ChristJesus ChristBy

Allama Imant Khan

سسیدنا مسیحسسیدنا مسیحکیکی

لاثانی شخصتلاثانی شخصت مصنفہ

علامہ امانت خاں بی ۔اےUrdu

September.30.2005www.muhammadanism.org

تت مضامین فہرسصفحہمضامیننبرشار

5پہلا باب ۱

مسیحیت کی )اشاعت( کے متعلق غلط فہیاںدوسرا باب ۲

مسیحیت کی ترقی کا راز

۱۳

تیسرا باب ۳سیدنا مسیح لاثانی شخصیت

۱۶

چوتھا باب ۴مے سیدنا مسیح کے لاثانی دعو

۸۱

پانچواں باب ۵سیدنا مسیح کا لاثانی چال چلن

۱۳۴

چھٹا باب ۶اپیل

۱۳۹

پہلا باباان میں سے اکثر مذاہب مسیحی م\ذہب ادنیا میں بہت سارے مذاہب ہیں۔ اورم کرتے ہیں ۔ اوران مذاہب کےپیروؤں میں سے بہت اہت ریادہ دیرینہ ہونے کا دعو سے باپران\\ا سے سارے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ایسے مذہب کے پابند ہیں۔ جو بہت ہے۔ لیکن یہ بات بہت ح\\یرانگی کی معل\\وم ہ\\وتی ہے ۔ کہ مس\\یحی م\\ذہب کے م\\اننےادنی\\ا میں ت\\ام دیگ\\ر م\\ذاہب کے م\\اننے وال\\وں س\\ے بہت زي\\ادہ ہے۔ وال\\وں کی تع\\داد حالانکہ اس مذہب کے بانی سیدنا مسیح نے صرف دوہزار سال کا عصہ گزرا اس دنیا میں جنم لی\\ا۔ اور م\\ذہبوں کی ت\\اریخ کے نقطہ نظ\\ر س\\ے یہ زم\\انہ ای\\ک قلی\\ل زم\\انہ ہے۔اان کے م\\اننے وال\\وں م ک\\رتےہیں۔ جب کہ دیگر مذاہب جو بہت ہی دیرینہ ہونے کا دعو کی تع\\داد مس\\یحیوں کی تع\\داد س\\ے بہت کم ہے۔ چ\\اہیے ت\\ویہ تھ\\ا۔ کہ ج\\و م\\ذاہباان کے پ\\یروؤں کی تع\\داد مس\\یحیوں س\\ے زي\\ادہ ہ\\وتی لیکن اس کے ب\\رخلاف دیرینہ ہیں مسیحیت کے پیروؤں کی تعداد ت\ام دیگ\ر م\ذاہب کے پ\یروؤں کی تع\داد س\ے بہت زیادہ ہے۔ مسیحی دنیا کے ہرملک میں پ\ائے ج\اتے ہیں ۔ ک\\وئی ایس\\ی ق\وم نہیں جس میں لوگ مسیحی نہیں ہوئے ۔ دنی\\ا کی ہ\\ر حک\\ومت میں خ\\واہ وہ م\\ذہب پرس\\توں کی حکومت ہو خواہ وہ ناستکوں کی حکومت ہو۔ مسیحی مذہب کے پابند پائے ج\\اتے ہیں۔ دنیا کی ہر بولی بولنے والوں میں مسیحی ہیں۔ اورانجیل مقدس جو مسیحی مذہب کی مذہبی کتاب ہے۔ جس میں سیدنا مسیح کی لاثانی شخص\\یت ک\\ا ذک\ر ہے ک\\ااا چ\\وداں س\\وزبانوں میں ہوچک\\ا ہے۔ دنی\\ا میں یہی ص\\رف ای\\ک ت\\رجہ دنی\\ا کی تقریب\\ کت\\اب ہے جس ک\\ا ت\\رجہ ات\\نی زب\\انوں میں ہ\\واہے۔ اوریہی ای\\ک کت\\اب ہے جس کی اشاعت ناصرف کتابوں سے زيادہ ہے بلکہ یہی وہ کت\\اب ہے جس کی ف\\روخت س\\ب کتابوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ تو مسیحی مذہب کی ترقی اور انجیل مقدس کی اس قدر

تب فکر کو محو حیرت کردیتی ہے۔ کسی تحری\\ک کی اشاعت اور فروخت ہر صاحاان میں س\\ے ای\\ک بھی مس\\یحیت ت\\رقی کے جوظ\\اہرا اس\\باب مکن ہوس\\کتے ہیں۔ کی ترقی ک\\ا راز نہیں۔ بعض تح\\ریکیں دنی\\ا میں روپے کے زور پ\\ر پھیلائی ج\\اتی ہیں۔ بعض ل\\وگ غل\\ط فہی س\\ے یہ س\\جھتے ہیں۔ کہ مس\\یحیت بھی ب\\العوم ت\\ام دنی\\ام کرنے تک ہند میں روپے کے زور پر پھیلائی گئی ہے۔ ایسا دعو میں اور بالخصوص ملاانہیں یہ معل\\وم نہیں والے لوگ مسیحی تواریخ سے عدم واقفیت ک\ا اظہ\\ار ک\\رتے ہیں تب تب دولت تھ\\ا نہ ص\\اح کہ س\\یدنا مس\\یح ج\\و مس\\یحی م\\ذہب ک\\ا ب\\انی ہے نہ ص\\اح

ااس نے اپنی بابت یہ کہا : جائداد تھا تن " کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اورہ\\وا کے پرن\\دوں کے گھونس\\لے مگ\\ر اب

(۲۰: ۸آادم )سیدنا مسیح( کےلئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں" )انجیل شریف: متی اگر دولت مسیحیت کی ترقی کا راز ہوتی تو س\\یدنا مس\\یح یہ کبھی نہ کہ\\تے۔ دولتن\\د

آایت ۱۹کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونامشکل ہے۔متی اانہ\\وں۲۳باب کی ۔ بلکہ نے ایک نوجوان دولتند سے یہ مطالبہ کیا" اگ\ر ت\و کام\ل ہون\ا چاہت\\اہے ت\و ج\ا اپن\ا م\الآاک\\ر م\یرے پیچھے آاس\ان پ\\ر خ\\زانہ ملے گ\\ا اور واسباب بیچ کر غریبوں ک\\و دے تجھے

اان۲۱ب\اب کی ۱۹ہ\\ولے۔ م\تی اچنے آایت ۔ س\یدنا مس\\یح نے ج\\و اپ\\نے پہلے ص\\حابہ کی بابت انجیل مقدس میں بی\\ان ہے کہ اپن\\ا س\\ب کچھ چھ\\وڑ ک\ر س\یدنا مس\\یح کے

ب\\اب۱۹پیچھے ہولئے۔ " دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہول\\ئے " م\\تی آایت ۔ ان حوالج\\ات س\\ے ث\\ابت ہوت\\اہے کہ ج\\و ل\\وگ مس\\یح کے ص\\حابہ ب\\نے۲۷کی

اانہیں بج\\ائے دولت حاص\\ل ہ\\ونے کے اپن\\ا س\\ب کچھ چھوڑن\\ا پ\ڑا۔ س\\یدنا مس\یح کےاان سے یہ وعدے نہیں ک\\ئے گ\\ئے کہ تہیں دولت من\\د بنادی\\ا صحابی بننے کےلئے اان س\\ے یہ مط\\البہ کی\\ا گی\\اکہ م\\ال اس\\باب بیچ ک\\ر ج\\ائے گ\\ا۔ بلکہ اس کے ب\\رخلاف

غریبوں ک\\و دیں۔ لیکن اس ک\\ا مطلب یہ نہیں کہ خ\\ود ہی محت\\اج ہوج\\ائیں۔ بلکہ یہکہ اپنے مال دولت میں غریبوں کو حصہ دار بنائیں۔

ایان\\داروں کی ج\\اعت ای\\ک دل اور ای\\ک ج\\ان تھی۔ اور کس\\ی نے بھیاان کی سب چیزیں مشترک تھیں،)اعال ( کسی۳۲: ۴اپنے مال کو اپنا نہ کہا بلکہ

ااس\\ے روپیہ حاص\\ل نہیں ہوت\\ا بلکہ دس\\روں کی ام\\داد ش\\خص ک\\و مس\\یحی بن\\نے س\\ے کےلئے روپیہ دینا پڑتاہے ۔ ملک ہند میں اگر مس\یحیت روپے کے زورپ\\ر پھیلائی گ\ئی ہوتی ۔ توہند کے مسیحیوں میں ای\ک ش\خص بھی غ\ریب نہیں ہون\ا چ\اہیے تھ\ا۔ لیکنتب دولت بہت کم اور غ\\ریب بہت زی\\ادہ حقیت یہ ہے کہ ہن\\د` مس\یحیوں میں ص\\اح ہیں۔ پس روپیہ مسیحیت کی ترقی کا راز نہیں ہے۔ بعض تحریکیں تل\\وار کے زور س\\ے پھیلائی ج\\اتی ہیں ۔ لیکن مس\\یحیت کی ت\\رقی ک\\ا راز تل\\وار ک\\ا زور نہیں ہے۔زبردس\\تی تبدیلی مذہب ہر صورت میں ناجائز ہے۔ اگریہ بات جائز ہوتی تو خ\\دا ک\\و چ\\اہیے تھ\\اکہ تام لوگوں ک\\و زبردس\\تی س\\چے اور کام\\ل م\\ذہب میں داخ\\ل کرات\\ا۔ لیکن خ\\دا م\\ذہبی تبدیلی یا مذہب کے قبول کرنے میں زبردستی نہیں کرتا۔ سیدنا مسیح کے پاس کوئی تل\\وار ک\ا زور نہ تھ\\ا۔ بلکہ جب س\\یدنا مس\یح ک\\و دش\ن گرفت\\ار ک\\رنے لگے ت\\ویہ بی\\انآاک\ر س\\یدنا مس\یح پ\ر انجیل مقدس میں پایا جات\اہے۔ اس پ\ر انہ\\وں )دش\نوں( نے پ\اس اانہیں پکڑا۔ اور دیکھ\\و س\\یدنا مس\\یح کے س\\اتھیوں میں س\ے ای\\ک نے ہ\\اتھ ہاتھ ڈالا اورااس ک\\ا ک\\ان اڑادی\\ا۔ س\\یدنا بڑھا کر تلوار کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پ\\ر چلا ک\\ر مس\یح نے اس س\ے کہ\\ا اپ\نی تل\وار ک\و می\ان میں ک\رلے۔ کی\ونکہ ج\و تل\وار کھینچ\تے

ادنی\\اکی ت\\اریخ۵۲ت\\ا ۵۰: ۲۶ہیں ۔ وہ سب تلوار سے ہلاک کئے ج\\ائیں گے ۔ م\\تی ) مس\یح کے اس ق\ول کی ش\اہد ہےکہ جنہ\وں نے دنی\ا ک\و تل\وار اور زور س\ے فتح ک\رنےآاخرکار وہ خود تلوار اور زور سے ہی مغلوب ہوگئے ۔ مس\یحی ت\واریخ کی کوشش کی ااس وقت م\ذہبی رہن\اؤں نے غل\ط رہن\ائی آای\ا کہ میں بھی ایک ایساتاریکی ک\ا وقت

کی۔ اوراس بانی مذہب کے نام میں جو امن وسلامتی کا شہزادہ کہلاتاہے۔ جس کی زندگی کا اصول محبت اور عدم تشدد تھا۔ ص\\لیبی جنگیں ل\\ڑ گ\\ئیں۔ لیکن جس سرزمین میں مسیحیت کو تلوار کے زور سے ق\\ائم رکھ\\نے اورپھیلانے کی کوش\\ش کیتک فلسطین جہ\\اں س\\یدنا مس\\یح نے گئی ۔ وہیں مسیحیت ناکامیاب ہوئی ۔اور وہی ملآادھ\\ا مس\\لانوں کے قبض\\ے میں جنم لیا اورجہاں صلیبی جنگیں ل\\ڑ گ\\ئیں ۔ وہ مل\\ک آادھ\\ا یہودی\\وں کے قبض\\ے میں ہے۔ اس مل\\ک میں بہت کم ل\\وگ ہیں۔ لیکن ہے اور جہاں تشدد کا جواب عدم تشدد سے دیا گیا۔ نفرت کا جواب محبت سے دی\\ا گی\\ا۔ وہاں مسیحیت نے ترقی کی اور چند س\\الوں میں رومی زبردس\\ت حک\\ومت مس\\یحیتاومی شہنش\\اہ ک\\و یہ کہن\\ا پ\\ڑا"۔ اے ناص\\ر )س\\یدنا کے سامنے مغلوب ہوگ\\ئی اور ر مسیح( تو فتح مند ہوا" وہی مسیحی ملک کہلات\\اہے ۔ لہ\\ذا مس\\یحیت کی ت\\رقی ک\\ا راز تلوار کا زور نہیں ہے۔ بعض تحریکیں حکومت کے زورپر پھیلائی ج\اتی ہیں۔ ک\ئی ایک مذہبی رہنا یا تو بادشاہوں کے گھرانوں میں پیدا ہوئے یا بعد میں بادشاہ بن گ\\ئےاانہ\\وں نے بادش\\اہ کے ۔ لیکن س\\یدنا مس\\یح نے ای\\ک غ\\ریب گھ\\رانے میں جنم لی\\ا۔ نہ اانہ\\وں نے یہ کہ\\ا۔ مس\یح نے ج\\واب دی\اکہ گھرانے میں جنم لیا نہ ہی بادشاہ بن\\ا۔ بلکہ میر بادشاہت اس دنیا کی نہیں۔ گر میر بادشاہی دنیا کی ہوتی تومیرے خادم لڑتے۔ تاکہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا مگر میر بادشاہی یہاں کو نہیں؟ یوحن\\ا ب\\اب

۔ دنی\\ا کی بادش\\اہتیں زور س\\ے ہی حاص\\ل کی ج\\اتی ہیں۔ اور زورہی س\\ے۳۶آایت 18تک ہن\\د میں ق\\ائم رکھی ج\\اتی ہیں۔ بعض ل\\وگ یہ س\\جھتے ہیں کہ مس\\یحیت مل\\آائی اور انگریزوں کی حکومت ہی کے وسیلے سے انگریزي حکومت کے وسیلے سے پھیلی ہے۔ اگر مس\\یحیت انگری\\زوں کی حک\\ومت کے وس\\یلے س\\ے پھیلائی ج\\اتی ت\\و انگری\\\ز حک\\\ومت کے ختم ہوج\\\انے پ\\\ر ختم ہوج\\\اتی ۔ یہ ت\\\واریخی حقیقت ہے کہتک ہند میں دو ہزار سال کا عرصہ گذرا سیدنا مسیح کے ای\\ک ش\\اگرد توم\\ا مسیحیت مل

رس\\ول کے وس\\یلے س\\ے پہلے دفعہ داخ\\ل ہ\\وئی ۔ مس\\یحی س\\وداگروں اور مش\\نریوں کے وسیلے سے انگریز حکومت سے بہت برسوں پہلے مسیحیت کی من\\اد` ہ\\وتی رہی اوراس مل\\ک میں ای\\ک قلی\\ل تع\\داد مس\\یحیوں کی ہ\\و گ\\ئی انگری\\ز حک\\ومت کے دوران میں بھی مسیحی مشنریوں کا بحیثیت مشنر انگریز حکومت سے تعلق نہ تھا۔ اسی لئے انگریزي حکومت ختم ہوگئی۔ لیکن مشنر ک\\ام بدس\\تور ج\\ار ہے۔ااس مل\\ک مسیحی تواریخی یہ بتاتی ہے کہ جب سیدنا مسیح نے تعلیم دینی شروع کی ااس زم\\انے کی ااس کے بدترین دش\\ن بن گ\\ئے ۔ اور کے مذہبی رہنا یعنی یہود` حک\\ومت یع\\نی رومی حک\\ومت مخ\\الف ہوگ\\ئی ۔ جس کے ن\\تیجے کے ط\\ورپر س\\یدنا مسیح مصلوب کردیا گیا۔ اور ک\\ئی ص\\دیوں ت\\ک رومی حک\\ومت مس\\یحیت کی بیخ کنی کرنے کےلئے مسیحیوں کا خون بہاتی رہی۔ توحکومت کا مسیحیت کی مدد کرنا تو درکنار رہا۔ کئی صدیوں ت\ک رومی حک\ومت میں مس\\یحی م\\ذہب ہی ناج\\ائر مذہب رہا اورمسیحیوں کو چند صدیوں تک رومی حکومت کے ہاتھوں ظلم وتشدد ک\\ا سامنا کرنا پڑا توجو لوگ مس\\یحیت کی ت\\رقی راز حک\\ومت بت\\اتے ہیں۔ وہ ی\\ا ت\\و ایس\\ا کہنے سے مسیحی تواریخ سے ع\\دم واقفیت ک\\ا اظہ\\ار ک\\رتے ہیں۔ ی\\ا تجاہ\\ل عارف\\انہ کے طورپر مسیحیت کو بدنام کرنے کی خاطر مس\یحیت کی ت\رقی ک\ا راز حک\ومتم کی بنی\\اد بت\\اتے ہیں۔ ایس\\ے لوگ\\وں نے حقیقت س\\ے چش\\م پوش\\ی ک\\رکے اپ\\نے دع\\و محض تعصب پ\ر رکھ چھ\\وڑ ہے۔ بلکہ حقیقت ت\ویہ ہے کہ انگری\ز حک\ومت کے دوران میں بہت سارے لوگ مسیحی مذہب س\ے اس ل\\ئے نف\\رت ک\\رتے تھے۔ کی\ونکہااس م\\ذہب س\\ے بھی نف\\ر ت اانہیں انگری\\زوں کی حک\\ومت س\\ے نف\\رت تھی۔ لہ\\ذا وہ کرتے تھے۔ جو حکومت کا مذہب تھا۔ اب لوگوں کا نقطہ نظ\\ر مس\\یحیت کے ب\\ارے

اہت درجہ تک بدل گیا ہے۔ میں ب

دوسرا باب بعض تح\\ریکیں علم کے زور پ\\ر چلائی ج\\اتی ہیں۔ لیکن س\\یدنا مس\\یح نے ایسے چیلے چنے جو عالم نہ تھے بلکہ جن کا پیشہ ماہی گیر اور محصول لینا تھ\\ا۔اان پڑھ کہ\\تےہیں۔ جب انہ\\وں نے پط\\رس اوریوحن\\ا اسی لئے مسیح کے چیلوں کو لوگ آادمی ہیں ت\و تعجب کی\\ا۔ پھ\\ر اان پ\ڑھ اور ن\اواقف کی دلیر دیکھی او رمعلوم کیاکہ

آایت ۴اانہیں پہچاناکہ یہ سیدنا مسیح کے س\\اتھ رہے ہیں اع\\ال ب\\اب ۔ ایس\\ے۱۳: ااس نے چنا جن میں سے ایک چیلے یہ\\وداہ اس\\کریوتی کم علم صرف بارہ چیلوں کو اان میں س\ے س\\ب س\ے بہ\\ادر چیلے نے غدار ہوکر خود سیدنا مس\یح ک\و پکڑوادی\ا ۔ پطرس نے جس نے سیدنا مسیح س\ے یہ کہ\ا تھ\\ا ۔ اے خداون\د ت\یرے س\اتھ میں قی\\د

آایت ۲۲ہ\\ونے بلکہ م\\رنے ک\\و بھی تی\\ار ہ\\وں؟ لوق\\ا ب\\اب ااس\\ی پط\\رس نے ای\\ک۲۳: ۔ ااس )پطرس ( نے قسم کھاکر آادمیوں کے سامنے سیدنا مسیح کا انکار کیا" لونڈ` اور

آادمی )س\\یدنا مس\\یح ( ک\\و نہیں جانت\\ا۔ م\تی ب\\اب آایت۲۶پھر انکار کی\\ا کہ میں اس : اانہ\\وں نے حکومت\\وں۴۲ می روح بھ\\رد` کہ اان میں وہ الہ انہیں گیارہ چیل\\وں ک\\و لے ک\\ر

اور ع\\الوں ک\\و ح\\یران کردی\\ا۔ اورمس\\یحی م\\ذہب کی اس ط\\ور پ\\ر من\\اد` کی کہ ان ص\\حابیوں کے حین حی\\ات ہی میں مس\\یحی م\\ذہب ت\\ام ای\\ذا رس\\انیوں کے ب\\اوجودتک فلسطین ہی میں پھی\ل گی\ا۔ بلکہ ب\راعظم ایش\یا س\ے ب\راعظم ی\وروپ ناصرف ملااس وقت اپ\\نے ص\\حابیوں س\\ے یہ کہ\\ا ۔ کہ تم میں بھی پھی\\ل گی\\ا۔ س\\یدنا مس\\یح نے ااس زم\\انے ک\\ا زبردس\\ت رومی س\\ب مجھے چھ\\وڑدوگے اورایس\\ے وقت میں جب کہ

ااس نے یہ پیش\\ینگوئی ااس کے چیل\\وں کی مخ\\الفت تھی حک\\ومت س\\یدنا مس\\یح اور کی کہ یروشلیم سے شروع کرکے سب قوموں میں توبہ اورگناہوں کی مع\\افی کی من\\اد`

آایت ۲۴ااس کے )س\یدنا مس\یح ( کے ن\ام س\\ے کی ج\ائيگی )لوق\ا ب\اب ( اورجب۴۷: تر س\\یدنا مس\یح پ\ر ڈالا توش\اگردوں نے خف\\ا ہ\\وکر کہ\ا یہ کس ل\ئے ایک عورت نے عطااس نے ج\\و عط\\ر م\یرے ب\دن پ\ر ڈالا یہ م\یرے ضائع کیا گیا۔ سیدنا مسیح نے کہ\\ا"

آایت ۲۶دفن کی تیار کے واسطے کیا" متی باب ۔ لیکن باوجود یہ جاننے کے۱۲: کہ میں پکڑوایا جاؤنگا۔ مصلوب کیا جاؤں گا اور دفن ہونگا۔ پیش\\ینگوئی کی ۔ میں تم سے سچ کہتاہوں کہ تام دنیا میں جہاں کہیں اس خوشخبر کی مناد` کی جائيگی۔ یہ بھی جو اس نے کہ\ا ۔ اس کی یادگ\ار میں کہ\ا ج\ائے گ\ا "م\تی ب\اب

آایت ۲۶ ۔ پھ\\\\ر س\\\\یدنا مس\\\\یح نےیہ بھی پیش\\\\ینگوئی کی اوربادش\\\\اہی کی اس۱۳: خوشخبر کی مناد` تام دنیا میں ہ\\وگی ت\اکہ س\ب قوم\وں کےل\ئے گ\واہی ہ\\و۔م\تی

آایت ۲۴باب ۔ ایسے مخالف حالات کے درمیان ایسی پیش\\ینگوئیاں کیں جن۱۴: آاتا تھ\\ا۔ لیکن مس\یحیت کی ت\رقی اورانجی\\ل کی اش\اعت گ\\واہ کا پورا ہونا نامکن نظر اان پیش\\ن گوئی\\وں ک\\و پ\\ورا ک\\رنے والے ہے۔ کہ وہ پیش\\ین گوئی\\اں س\\چ ث\\ابت ہ\\وئیں۔ " ک\\وئی ب\\یرونی اس\\باب نہ تھے۔ پس ث\\ابت ہ\\واکہ کس\\ی تحری\\ک کی ت\\رقی کے جت\\نےاان میں س\\ے ای\\ک بھی مس\\یحیت کی ت\\رقی ک\\ا راز نہیں بیرونی اسباب ہوسکتےہیں۔

ہے۔ تو سوال پیدا ہوتاہے کہ مسیحیت کی ترقی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس ت\\رقی کی اص\\ل وجہ س\\یدنا مس\\یح کی لاث\\انی شخص\\یت ہے۔ کس\\ی شخصیت کے بارے میں پور واقفیت حاصل کرنے کےلئے تین باتیں جاننا ض\\رور

ہیں۔ ااس شخص نے کیسی تعلیم د`؟۱ ۔ مے کئے؟۲ ااس شخص نے کیا کیا دعو ۔

ااش شخص کاچال چلن کیسا تھا؟۳ ۔

تیسرا بابتیسرا باب۔ سیدنا مسیح نے کیسی تعلیم د`؟۔ سیدنا مسیح نے کیسی تعلیم د`؟۱۱

۔ سیدنا مسیح نے بتایا ۔ کہ خدا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایاکہ وہ کیس\ا خ\دا۱آایت ۵ہے۔ متی باب ۔ ۴۵:

آاسان پر ہے بیٹے ٹھہ\\رو۔ وہ خ\\دا ہے اورس\\ب انس\ان " تم اپنے باپ کے جو ااس کے بیٹے ہیں۔

خدا کے بارے میں دوطرح کے خیال پائے جاتےہیں ۔ بعض لوگوں ک\\ا خی\\ال یہ ہےکہ ک\\وئی خ\\دا نہیں۔ ایس\\ے لوگ\\وں ک\\و ناس\\تک ی\\ادہرئیے کہ\\ا جات\\ا ہے۔ یہ ل\\وگم کرتے ہیں۔ کہ کوئی خدا نہیں۔ خدا کی ہستی ک\\ا مانن\\ا ای\\ک وہم ہے۔ اورخ\\دا دعو

کی ہستی کے بارے میں مندرجہ ذیل قسم کے کئی ایک اعتراضات پیش کرتے ہیں: ۔ میں خ\\دا کی ہس\\تی ک\\ا اس ل\\ئے منک\\ر ہ\\وں کی\\ونکہ وہ م\\یرے تج\\ربہ میں۱

آایا۔ لہذا خدا کی ہستی کا ماننا ایک وہی امر ہے۔ نہیں ااس\\ے م\\اننے۲ آای\\ا۔ اس ل\\ئے میں ۔ چونکہ خدا میرے حواس خسہ میں نہیں

کےلئے تیار نہیں ہوں۔۔ یہ سائنس کا زمانہ ہے۔ اور سائنس چونکہ خدا کی ہستی کی منک\\ر ہے ۔۳

لہذا میں بھی خدا کی ہستی کا منکرہوں۔ آائی پہلے کا اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جو ش\\ئے نہ کس\\ی کے تج\\ربہ میں آائي ہے۔ اس ش\\ئے کے وج\\ود ااس کے تج\\ربہ میں ادعی ہ\\و کہ ہو اور نہ ہی کوئی اور م\\آائي۔ لیکن اوربے ک\\ا انک\\ا رمکن ہے۔ لیکن اگ\\ر ک\\وئی ش\\ئے م\\یرے تج\\ربہ میں نہیں م آائی ہے۔ ت\و اس ح\الت میں یہ دع\\و اان کے تج\\ربہ میں م ہ\و کہ ش\ار لوگ\\وں ک\ا دع\و

م غلط ہوگ\\اکہ چ\\ونکہ آائي۔ لیکن یہ دعو توصحیح ہوگاکہ وہ شے میرے تجربہ میں نہیں آائی ہے۔ لہ\\ذا دنی\\ا میں کس\\ی کے تج\\ربہ میں بھی نہیں وہ شے میرے تج\\ربہ میں نہیں آائي ہے۔ جیس\\ے کہ ای\\ک ش\\خص یہ کہے کہ میں یہ نہیں مانت\\ا کہ ملیری\\ا کے ج\\راثیمم کے ثب\وت میں یہ دلی\\ل دے کہ چ\ونکہ یہ ج\راثیم م\یرے تج\ربہ ہوتے ہیں اوراپنے دع\وم ای\\ک غل\\ط اان کے وج\\ود ک\\ا منکرہ\\وں ایس\\ا دع\\و آائے۔ لہذا میں اورمشاہدہ میں نہیں م ہوگ\\ا۔ جبکہ بے ش\\ار اور انس\\انوں ک\\ا تج\\ربہ اورمش\\اہدہ یہ ہے۔ کہ ملیری\\ا کے دع\\و ج\راثیم ہ\\وتے ہیں ی\ا ک\وئی ش\خص یہ کہے کہ میں ان ج\راثیم کے وج\ود ک\ا قائ\ل تباان ج\\راثیم ک\ا دیکھن\ا مکن ہے آانکھ\\وں س\ے دیکھ ل\وں۔ ہ\\اں ہونگا۔ اگر میں ان کی اان لیکن ایک وس\یلے کی ض\رورت ہے۔ اور وہ وس\یلہ خ\وردبین ہے۔ جس ط\\رح انس\ان آاج س\\ے ج\\راثیم ک\\و بغ\\یر وس\\یلہ کے نہیں دیکھ س\\کتا ۔ ح\\الانکہ یہ م\\اد` ہیں۔ اگ\\ر آاواز ہ\\زاروں میل\وں پ\ر س\\ے دوس\را م کرت\ا ۔ کہ ای\ک انس\ان کی کچھ ب\رس پہلے یہ دع\واا اگ\\ر کس\ی ایس\\ے م ک\\ا یقین نہ کرت\\ا۔ اور انس\ان س\\ن س\\کتا ہے ت\\و ک\وئی اس دع\\وآاواز ہزاروں میل\\وں آادمی کی شخص سے جو ریڈیو سے ناواقف ہے یہ کہے کہ ہم ایک اا سکا یقین نہیں کرے گ\\ا ۔ بلکہ اس\\ے وہم کہے سے سن سکتے ہیں تو وہ اب بھی آاواز ہ\\زاروں گ\ز ت\ک بھی نہیں گا ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ بغیر وسیلہ س\ے انس\ان کی جاس\\کتی۔ لیکن وس\\یلہ کے س\\اتھ ہ\\زاروں میل\\وں ت\\ک س\\نی جاس\\کتی ہے۔ جب ایس\\یآانکھ\\وں س\\ے دیکھ\\نے کےل\\ئے خ\\وردبین کے م\\اد` اش\\یاء جیس\\ے ج\\راثیم ک\\و ظ\\اہر آاواز کو ہزاروں میل\\وں پ\\ر س\\ننے کےل\\ئے ری\\ڈیو کی وسیلہ کی ضرورت ہے اورانسان کی ااس کے تج\\ربہ اورمش\\اہدہ کے ل\\ئے کی\\وں وس\\یلہ ضرورت ہے۔ توخدا جو غیر م\\رئی ہے۔ م ہے۔ کہ ای\\ان کی ضرورت نہیں۔ وہ وسیلہ ایان ہے۔ بے ش\\ار انس\\انوں ک\\ا یہ دع\\و

آایاہے۔ اان کے تجربہ اور مشاہدہ میں کے وسیلہ سے خدا دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے:

اان ہی اش\\یاء ک\\ا قائ\\ل ہ\\و دنی\\ا میں ک\\وئی انس\\ان ایس\\ا نہیں۔ کہ ج\\و ص\\رف آائی ہیں۔ بلکہ ہر شخص کو اس دنی\\ا میں دوس\\روں کے تجرب\\ات ااس کے حواس میں جوااس کے ح\\واس خس\\ہ میں کی بن\\ا پ\\ر ایس\\ے مانن\\ا پڑت\\اہے جیس\\ےکہ وہ چ\\یزیں خ\\ود اان کی ہستیوں اا تواریخی ہستیاں، جوبڑے بڑے بادشاہ مرچکے ہیں۔ ہم آاچکی ہیں۔ مثلاا آاچکےہیں۔ مثل ک\\و ایس\\ے م\\ان لی\\تے ہیں۔ جیس\\کہ وہ ہ\\ارے تج\\ربہ اورمش\\اہدہ میں مہاراجہ اشوک اس کے وجود کے بارے میں ہیں ذرا بھی شک نہیں۔ کیونکہ اگرچہااس وقت آای\\ا۔ لیکن جس زم\\انہ میں وہ پی\\دا ہ\\وا وہ ہ\\ارے تج\\ربہ اور مش\\اہدہ میں نہیں آائے کہ مے ک\رتے ااس وقت کےل\وگ یہ دع\و آای\ا اور کےلوگ\\وں کے تج\\ربہ اورمش\اہدہ میں اان لوگ\وں کی گ\واہی پ\ر اس ب\ات ک\و ایس\ے م\ان لی\ا مہاراجہ اشوک ہوا ہے۔ اورہم نے آای\\\ا ہے۔ دنی\\\ا کے مال\\\ک کے ہے۔ جیس\\\ے کہ ہ\\\ارے تج\\\ربہ اور مش\\\اہدہ میں بھی اان کے وج\\ود آانکھ\\وں س\\ے نہیں دیکھے لیکن ہیں مختلف شہر جواگرچہ ہم نے اپ\\نی کے ب\\ارے میں ک\\وئی ش\\ک نہیں ہے۔ کی\\ونکہ بے ش\\ار لوگ\\وں ک\\و گواہی\\اں ہیں کہ وہ شہر ہیں اور دنیا کی بے شار چیزيں جو کہ اگ\\رچہ ہ\\ارے ح\\واس خس\\ہ میں نہیںاانہیں اس طرح تسلیم ک\\رتے ہیں۔ کہ گوی\\ا وہ آائیں۔ لیکن دوسروں کی گواہیوں پر ہم نے

آاچکی ہیں۔ ہارے تجربہ اورمشاہدہ میں تیسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سائنس نہ ت\\و خ\\دا کے منک\\ر ہے اورنہ ہی خدا کی قائل۔ بے شار سائنس دان خدا کے منکر ہیں۔ اوربے شار سائنس دان خداآائین اس\\ٹائين کہت\\اہے کہ" میں بہت کے قائل ہیں۔ دنیا ک\\ا مش\\ہور س\\ائنس دان ال\\برٹ

آادمیوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہی دین دار مذہبی آائ\زک نی\\وٹن لکھت\اہےکہ " ہم خ\دا کے کلام ک\و دنیا کا مشہور س\ائنس س\ر می فلاسفی س\\جھتے ہیں۔ میں دوس\\ر ت\\ام ت\\واریخی کت\\ابوں س\\ے ایک نہایت ہی اعل

ااس کے معتبر ہونے کے ثبوت پاتاہوں۔ زيادہ بائبل مقدس میں

تویہ کوئی دلیل نہیں۔ کہ میں خدا کی ہستی کا اس ل\\ئے قائ\\ل نہیں۔کی\\ونکہاا خ\\دا پرس\\ت ہے۔ خ\\دا ک\\ا اق\\رار س\\ائنس خ\\دا کی ہس\\تی کے قائ\\ل نہیں۔ انس\\ان طبع\\ طبعی امر ہے اورانکار غیر طبعی ہے۔ انسان ہیشہ سے ایک ہس\\تی ک\ا قائ\ل رہ\\اہے ج\و ااس سے بڑ ہے۔ ہر ملک اورہ\\ر زم\\انے میں انس\\ان ایس\\ی ہس\\تی کے قائ\\ل رہے۔ یہ\\اں تک کہ انسان نے ایسی ہستی کے ماننے میں اپنی زن\\دگی کی قربانی\\اں ت\\ک بھی دے

دیں۔ااس کی پرستش کرنا انسان کا ای\\ک طبعی ج\\ذبہ ہے پس ج\\و خدا کو ماننا

ااس کے ذمہ ہے۔ تر ثبوت اس طبعی جذبہ کا انکار کرتاہے۔ با پلاٹو جرمن فلاسفر لکھتاہے " بہت ہی کم لوگ دہ\\ریت میں ایس\\ے ض\\د` ہیں کہ ایک زبردست خطرہ بھی انہیں اس بات کےل\\ئے مجب\\ور نہیں کرس\\کتا۔ کہ وہ

می قوت کو نہ مانیں۔ ایک الہآادمی کی تر حساب اور فلاسفر بلیئر پارکل کہتاہے" دنی\\ا چ\\ونکہ فرانس کا ماہآادمی ک\و خ\دا کے خواہشات کو پورا کرنے میں ناکامیاب ہے لہ\ذا یہی ب\ات لام\ذہب

ساتھ قائم رکھتی ہے۔ سیدنا مس\\یح نے یہ بتای\\ا۔ کہ خ\\دا ہے۔ جس ک\\ا ثب\\وت یہ ہے کہ رومی\\وں کے

میں یوں مرقوم ہے:۲۰، ۱۹آایت ۱نام پولوس رسول کا خط باب اان کے ب\\اطن میں " کی\\ونکہ ج\\و کچھ خ\\دا کی نس\\بت معل\\وم ہوس\\کتاہے وہ ااس کی ان دیکھی اان پر ظاہر کردیاہے۔ کی\\ونکہ ااس کو ظاہر ہے۔ اس لئے کہ خدا نے ااس کی ازلی قدرت اور ال\\وہیت دنی\\ا کی پی\\دائش کے وقت س\\ے بن\\ائی صفتیں یعنی اان ک\\ا کچھ آاتی ہے۔ یہ\\اں ت\\ک کہ ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معل\\وم ہ\\وکر ص\\اف نظ\\ر

عذر باقی نہیں"۔

دلیل یہ ہے کہ دنیا کا وجود نیا کے خ\\الق کے وج\\ود پ\\ر دلالت کرت\\اہے۔جس طرح سے میز کو دیکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس میز ک\\ا ک\\وئی نہ ک\\وئی ک\\اریگر ضرو رہوگا۔ بنی ہوئے شئے بنانے والے کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔ اگر کوئی میز کوم کرے کہ اس م\یز ک\ا ک\وئی بھی بن\انے والا نہیں اور ثب\\وت یہ دے دیکھ کر یہ دعو کہ چونکہ میں نے میز کے بنانے والے ک\\و نہیں دیکھ\\ا۔ لہ\\ذا اس م\\یز ک\\ا ک\\وئی بھیم کرنے والے شخص کو احق کہا جائے گا۔ اس\\ی بنانے والا نہیں ہوسکتا۔ ایسا دعو طرح بائبل مق\\دس میں لکھ\\اہے " کہ اح\\ق کہت\\اہے کہ ک\\وئی خ\\دا نہیں " ح\\الانکہااس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنی\\ا کی پی\\دائش کے ااس کی اندیکھی صفتیں یعنی آاتی ہے ۔ یہ\\اں ت\\ک وقت سے بنائي ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر ص\\اف نظ\\ر اان کو کچھ عذر ب\\اقی نہیں۔ س\\یدنا مس\\یح نے ناص\\رف یہ بتای\\اکہ خ\\دا ہے۔ بلکہ کہ یہ بتایا کہ وہ کیسا خدا ہے۔ یہ بتایاکہ خدا باپ ہے جو ناصرف مسیحیوں کا ب\\اپ ہے بلکہ تام لوگوں کا باپ ہے۔ دنیا کے انس\ان چ\اہے وہ کس\ی ق\وم، ملت، م\ذہب س\ے

آایت ۲۳تعلق رکھتے ہوں۔ سب بھائی بھائ ہیں۔ متی باب " تم سب بھائی ہو۱۹، ۹ آاسان پ\\ر ہے" آایت ۸کرنتھی\\وں ب\\اب ۱۔۔۔۔۔۔تہارا ایک ہی باپ ہے جو " ہ\\ارے۶

نزدیک توایک ہی خدا ہے یعنی " باپ " باپ ہونے کی وجہ سے وہ تام انسانوں سے پیار کرتاہے ۔ وہ کسی کو غ\\ریب ی\\ا ام\\یر نہیں بنات\\ا بلکہ انس\\ان ہی خ\\ود غرض\\یوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو غ\\ریب بنات\اہے کی\\ونکہ خ\دا ک\ا س\لوک اس فط\رت میں ت\ام

آایت ۵انسانوں کے ساتھ ایک ہی جیسا ہے ۔ متی باب ۔ تاکہ تم اپنے باپ۴۶تا ۴۵: آاسان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپ\\نے س\\ورج ک\و ب\دوں اورنیک\\وں دون\\وں پ\\ر کے جو ااس نے کس\\ی ک\\و چکاتا ہے اور راس\\تبازوں اور ناراس\\توں اور دون\\وں پ\\ر مینہ برس\\اتاہے " می جاتی کا نہیں بنایا۔ بلکہ خ\\ود غ\\رض انس\ان ہی نے دوس\رے انس\ان ک\و می یا ادن اعلمی بنادیا اور اس خود غرضی کو جائز ٹھہ\\رانے کےل\\ئے ذمہ دار خ\\دا پ\\ر ڈال د` ادن

می پی\\دا کی\\ا ہے۔ اع\\ال ب\\اب می اور فلاں ک\\و ادن ت\\ا۳۴آایت ۱۰کہ خ\\دا نے فلاں ک\\و اعل " اب مجھے پورا یقین ہوگیا۔ کہ خ\\دا کس\\ی ک\\ا ط\\رف دار نہیں۔ بلکہ ہ\\ر ق\\وم میں۳۵

آات\اہے" اع\ال ب\اب ااس ک\و پس\ند ااس سے ڈرت\ا اور راس\تباز کرت\\اہے۔ وہ :۱۷سے جو آادمی\\وں کی ہرای\\ک ق\\وم ت\\ام روئے زمین پ\\ر رہ\\نے کے۲۶ " اس نے ایک ہی اص\ل س\\ے

اان کی معی\\اریں اور س\کونت کی ح\دیں مق\\رر کیں" خ\\دا ب\\اپ کی ل\\ئے پی\\دا کی۔ اور محبت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا کہ وہ ایسا پیار کرنے والا باپ ہے جو ناصرف اچھے

:۱۵کام کرنے والوں سے پیار کرتاہے۔ بلکہ نافرمانوں سے بھی پیار کرت\\اہے ۔ لوق\\ا ب\\اب اان میں س\\\ے۲۲، ۱۱آایت ااس نے کہ\\\ا کہ کس\\\ی ش\\\خص کے دوبی\\\ٹے تھے " پھ\\\ر

چھ\\وٹے نے ب\\اپ س\\ے کہ\\ا" اے ب\\اپ! م\\ال ک\\ا حص\\ہ مجھ ک\\و پہنچت\\اہے مجھےااس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا دےدے ۔ اپنا سب کچھ جع ک\رکے دور دراز مل\ک ک\و روانہ ہ\\وا اور وہ\اں اپن\\ا م\ال ب\دچلنی میںااس مل\ک میں س\خت ک\ال پ\ڑا۔ اور وہ محت\اج اڑادیا۔ اورجب س\ب خ\رچ کرچک\ا ت\و آاروز تھی۔ ااس\ے ااس کو اپنے کھیتوں میں س\\ور چ\رانے بھیج\\ا اور ااس نے ہونے لگا۔ پھر ااسے نہ دیتا تھا۔ اانہیں سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی کہ جو پھلیاں سور کھاتے تھے آاکر کہا۔ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو افراط س\\ے روٹی ااس نے ہوش میں پھر ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مررہا ہ\\وں۔ میں اٹھ ک\\ر اپ\\نے ب\\اپ کے پ\\اس ج\\اؤ ں گ\\ا۔آاسان کا اور ت\\یر نظ\\ر میں گنہگ\\ار ہ\\وا۔ اب اس ااس سے کہونگا۔ اے باپ ! میں اور لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ ب\\اپ نے اپ\\نے ن\\وکروں س\\ے کہ\\ا ۔ اچھے س\\ےااس کے ہ\\اتھ میں انگ\\وٹھی اور پ\ا ؤں میں ااس\\ے پہن\\اؤ اور اچھ\\ا ج\\امہ جل\د نک\\ال ک\\ر

جوتی پہناؤ۔ اپر محبت ب\\اپ ہے ج\\\و ناص\\\رف اس تثی\\\ل میں یہ بتای\\\ا گی\\\ا ہے۔ وہ ایس\\\ا فرمانبردار لوگوں سے پیار کرتا ہے۔بلکہ نافرمانوں سے بھی پی\ار کرت\\اہے۔ ب\اپ کی محبت

ک\\ا خاص\\ہ یہ ہے کہ ناص\\رف فرم\\انبردار بی\\ٹے س\\ے بلکہ نافرم\\ان بی\\ٹے س\\ے بھی محبترکھے۔

ااس نے یہ بتای\\ا کہ میں پہلی تعلی\\وں ک\\و منس\\وخ ک\\رنے نہیں بلکہ پ\\ورا۲ ۔ ااس نے آای\\ا ہ\\وں۔ س\\یدنا مس\\یح نے اخلاقی تعلی\\ات ک\\ا مخ\\الفت نہیں کی ۔ اور ک\\رنے کس\\ی اچھی تعلیم ک\\و رد نہیں کی\\ا۔ یہی س\\یدنا مس\\یح نے بتای\\ا۔اس\\ی ل\\ئے مس\\یحیااس نے تام اخلاقی تعلیوں کو مکل مذہب کسی سچائی کا مخالف نہیں ہے بلکہ کردی\\ا۔ پہلے یہ تعلیم د` ج\\اتی تھی بلکہ اب بھی د` ج\\اتی ہے۔کہ " خ\\ون نہ ک\\ر"

آایت ۵متی باب ۔ انسان کا قتل ہر مذہب میں گناہ ہے۔ او ریہ تعلیم د` جاتی ہے۲۱: کہ انسان کو قتل نہیں کرن\ا چ\اہیے۔ بلکہ ای\ک زم\انہ ج\و اخلاقی ط\ورپر ابت\دائی زم\انہ تھا۔ جس میں مذہب کے نام میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ وہ اخلاقی نقطہ نظ\\ر س\\ےاان کی تعلیم ب\\اقی تاریکی کا زمانہ ہے۔ اگر وہ محض یہی تعلیم دیتے خون نہ کر تو اان ہادی\\\ان می نہ ہ\\\وتی۔ بلکہ ہادی\\\ان م\\\ذہب کی تعلیم کے مط\\\ابق ہ\\\وتی ۔ لیکن اعلمی ہ\\وتی ۔ جنہ\\وں نے س\\یدنا مس\\یح س\\ے پہلے یہ تعلیم د`۔ خ\\ون نہ م\ذہب س\\ے ادن کر، سیدنا مسیح نے ناصرف اس تعلیم کو دوہرایا بلکہ اس تعلیم ک\\ا مک\\ل کردی\\ا اوریہ

آایت ۵فرمایا متی باب " تم سن چکے ہوکہ اگل\\وں س\\ے کہ\\ا گی\\ا تھ\\ا۔ کہ خ\\ون نہ۲۴: کر۔ اور ج\و ک\وئی خ\ون ک\رے گ\ا وہ ع\\دالت کی س\زا کے لائ\ق ہوگ\ا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصہ ہوگا وہ عدالت کی سزا کےلائق ہوگا۔تر ع\\دالت کی س\\زا کے لائ\\ق ہوگ\\ا۔ اورجو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدآاگ کے جہنم کا سزا وار ہوگ\\ا۔ پس اگ\\ر ت\\و قرب\\ان گ\\اہ ااس کو احق کہیگا۔ وہ جو آائے۔ کہ م\\یرے )عبادت کرنے کی جگہ ( پر اپنی نظ\\ر گ\\ذارنتا ہ\\و۔ اور وہ\\اں تجھے ی\\اد آاگے اپ\\\نی ن\\\ذر بھ\\\ائی ک\\\و مجھ س\\\ے کچھ ش\\\کایت ہے۔ ت\\\و وہیں قرب\\\ان گ\\\اہ کے آاک\ر ن\ذر گ\ذران "۔ یہ کہ\ا چھوڑدے۔ اورجاکر پہلے اپنے بھائی س\ے ملا پ ک\ر تب

گیا ناصرف خ\\ون نہ ک\\ر، بلکہ غص\\ہ بھی نہ ہ\\و۔ بلکہ یہ کہ\\ا ملاپ ک\\ر ، خ\\ون ای\\کااس ک\\ا پھ\\ل ہے س\یدنا مس\یح نے فعل ہے جو غص\ہ ک\ا ن\تیجہ ہے غص\ہ ج\ڑ ہے۔ خ\ون ااس ک\\ا ن\\تیجہ ہے۔ پی\\دا فرمایا غصہ نہ ہو جو خون کی جڑ ہے۔ کٹ گئی تو خون ج\\و

" ج\\و۱۵آایت ۳یوحنا ب\\اب ۱ہی نہیں ہوگا۔ بلکہ انجیل مقدس میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ کوئی اپنے بھائی سے ع\\داوت رکھت\\اہے وہ خ\ونی ہے" ناص\رف خ\ون ک\\ا فع\\ل گن\\اہ ہے۔ بلکہ دل میں عداوت رکھنا بھی گناہ ہے۔ سیدنا مسیح نے گناہ کی جڑ کو کاٹنے ک\\ا حکم دی\\ا اوراس گن\\اہ کی ج\\ڑ ع\\داوت ہے۔ خ\\دا انس\\ان کے ظ\\اہر افع\\ل ہی ک\\و نہیں دیکھت\\ا بلکہ دل پ\\ر غ\\ور کرت\\اہے۔ ع\\داوت دل میں پی\\دا ہ\\وتی ہے ۔ لیکن فع\\ل ب\\یرونیاا حالات کے تابع ہے قتل کا فعل کرنے کےلئے بیرونی ح\\الات مواف\\ق ہون\\ا چ\\اہیے۔ مثل قاتل کی مقتول تک رسائی ہو ب\وقت بچ\\انے والا نہ ہ\و۔ قات\ل مقت\ول س\ے زبردس\ت ہ\و۔ اس ل\\ئے مکن ہے ۔ ک\\وئی ش\\خص قت\\ل ک\\رنے ک\\ا ارادہ رکھے۔ لیکن ب\\یرونی ح\\الاتاانس\\انوں کے نزدی\\ک قات\\ل مواف\\ق نہ ہ\\ونے کی وجہ س\\ے قت\\ل ک\\ا فع\\ل نہ کرس\\کے ت\\و وہ ااس کے نزدیک وہ شخص قاتل ہے اسی نہیں ہوگا۔ لیکن خدا جو دل کو دیکھتاہے ۔ لئے یہ کہا " جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتاہے ۔ وہ خونی ہے" سیدنا مسیح کی یہ تعلیم لاث\\انی تعلیم ہے۔ یہ اس تعلیم ک\\ا ک\\ال ہے کہ خ\\ون نہ ک\\ر بلکہ اپ\\نےااس بھ\\ائی کے س\\اتھ آاکر نذگ\\ذران یع\\نی جب ت\\ک ہ\\ارا بھائی سے ملاپ کر تب ملاپ نہ ہو جس کو ہم سے شکایت ہے۔ تب تک ہارا ملاپ خ\\دا س\\ے بھی نہیں

۔ اگر ک\\وئی کہے کہ میں خ\\دا س\\ے محبت رکھت\\ا۲۵، ۲۱آایت ۴یوحنا باب ۱ہوسکتا۔ ہوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے ت\و جھوٹ\ا ہے ۔ کی\ونکہ ج\و اپ\نے بھ\\ائی س\ےااس نے دیکھ\\ا ااس نے دیکھا ہے۔ محبت نہیں رکھتا۔ وہ خدا س\\ے بھی جس\\ے جسے ااس کی ط\\رف س\\ے یہ حکم ملاہے"۔ کہ جوک\\وئی محبت نہیں رکھ س\\کتا۔ اورہم ک\\و

خدا سے محبت رکھتاہے وہ اپنے بھائی سے بھی محبت رکھے"۔

۔ س\\یدنا مس\\یح نے یہ فرمای\\ا ۔ م\\تی ب\\اب۲۷آایت ۵۔ زنا نہ کر ۔ م\\تی ب\\اب ۳ابر خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپ\\نے دل۲۸آایت ۵ " کہ جس کسی نے

ااس کے س\\اتھ زن\\ا کرچک\\ا"۔ اس ل\\ئے کہ خ\\دا س\\ے ک\\وئی چ\\یز پوش\\یدہ نہیں۔ وہ میں اانسان کے دل کو جانتاہے کہ وہ انس\\ان کی دلی خ\\واہش ک\\و اچھی ط\\رح پہچانت\\ا ہے۔ااسے تب تک نہیں ج\\ان س\\کا۔ اس لئے کہ انسان جو دوسرے انسان کے دل میں ہے جب تک وہ خواہش علی جامہ نہ پہنے۔ لیکن خدا انسان کے دل کو جانت\\اہے۔ اس\\یابر خواہش ہو تو وہ خدا کی نظر میں زناکا رہوگی\\ا۔ کس لئے اگر کسی کے دل میں ابر قدر لاثانی تعلیم ہے کہ زنا کی جڑ ہی کاٹ دینے ک\\و کہ\\ا۔ کی\\ونکہ جب دل میں

تط ع\\ام ب\\اب ابرا فع\\ل ہوت\\اہے۔ یعق\\وب ک\\ا خ\\ "۱۵آایت ۱خ\\واہش پی\\دا ہ\\و تی ہے۔ تب خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جنتی ہے۔ اورگناہ جب بڑھ چکا تو موت کرتاہے"۔

" ب\دکار خ\دا کی بادش\اہی کے وارث نہ ہ\وں گے ۔ ف\ریب نہ۹آایت ۱۶کرنتھی\وں ب\اب ۱ کھ\\اؤ حرامک\\ار خ\\دا کی بادش\\اہی کے وارث ہ\\وں گے نہ زناک\\ار " بلکہ یہ\\اں ت\\ک بی\\ان

" اگر ک\\وئی بھ\\ائی )یہ\\اں بھ\\ائی ک\\ا لف\\ظ خصوص\\یت۱۱آایت ۵کرنتھیوں باب ۱کردیا۔ ابت پرس\ت آایا ہے( کہلا کر حرامکار ی\الالچی ی\ا کے ساتھ مسیحی یا کرسچن کےلئے اا س سے محبت نہ رکھو بلکہ ایس\\ے کے س\\اتھ یاگالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو

کھانا تک نہ کھانا۔ یہ حرامکاروں کو سوشل بائی کاٹ کرنے کا حکم دیا۔آانکھ کے۳۸آایت ۵۔ متی باب ۴ " تم سن چکے ہ\\و ۔ کہ کہ\\ا گی\\ا تھ\\ا۔ کہ

آانکھ اور دانت کے ب\\دلے دانت" یہ تعلیم ت\\ام م\\ذاہب میں موج\\ود تھی اوریہی ب\\دلے ایک اخلاقی معیار تھا۔ اس تعلیم کی ضرورت بھی تھی۔ کیونکہ ابتدائی زم\\انہ میںااس میں ایسا درندہ پن تھا۔ اورایس\\ا ب\\دلہ جب انسان جنگل کے قوانین پر چلتا تھا۔ توااس ک\ا ای\ک دانت ت\وڑدے ت\و وہ تب ت\ک ص\بر لینے کا ج\ذبہ تھ\\ا۔ کہ اگ\ر ک\\وئی ااس کے ای\\ک دانت کے ااسے ج\\ان س\\ے م\\ار دے ی\\ا نہیں کرسکتاتھا۔ جب تک یا تو

ااس پر لگاد` گئی ۔کہ اگر بدلے کئی دانت توڑدے ۔ لیکن اس تعلیم سے ایک بندش ااس کا ایک ہی دانت توڑا جائے۔ اگرایک ااس کے بدلہ میں کوئی ایک دانت توڑدے تو ااس کے ب\\دلہ میں کی\\ا ج\\ائے۔ آانکھ ک\\ا نقص\\ان آانکھ ک\\ا نقص\\ان کی\\ا ہے توای\\ک ہی مش\\روط ب\\دلہ لی\\نے کی اج\\ازت دے د` گ\\ئی ۔ اوریہ ب\\دلہ لی\\نے کی تعلیم ای\\ک ع\\ام

۔" لیکن میں۶۱، ۳۹آایت ۵تعلیم ہے۔ لیکن سیدنا مس\\یح نے یہ تعلیم د`۔ م\\تی ب\\اب تم س\ے یہ کہت\اہوں۔ کہ ش\ریر ک\ا مق\\ابلہ نہ کرن\ا۔ بلکہ ج\و ک\وئی ت\یرے دہ\نے گ\ال پ\رااس کی ط\\رف پھ\\یردے ) یہ ع\\دم تش\\دد کی تعلیم ہے اور طانچہ م\\ارے دوس\\را بھی اا ط\\انچہ دہ\\نے ہ\\اتھ س\\ے م\\ارا جات\\اہے اورجس کے ای\\ک مث\\ال بی\\ان ہے ۔ ورنہ عوم\\ااس کے بائیں گال پر لگتاہے۔ اگر اس س\\ے محض لفظی مع\\نی م\\راد طانچہ لگتاہے۔ ہوتے تویہ ہونا چاہیے تھا۔ کہ اگر کوئی تیرے بائیں گال پر طانچہ مارے تو دوسرا بھی ااس کی طرف پھیر دے ۔ لیکن یہ مثالی بیان ہے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ تشدد ک\\اارتہ لین\ا مقابلہ تشدد سے نہ کرو۔ عدم تشدد سے کرو( اگر کوئی ن\الش ک\رکے ت\یرا ک\ااسے لی\\نے دے ج\\و ک\\وئی تجھے ای\\ک ک\\وس بیگ\\ار میں لے ج\\ائے چاہے۔ توچوغہ بھی ااس کے ساتھ دوکوس چلا جا"۔ عدم تشدد کی تعلیم کا بانی سیدنا مس\\یح تھ\\ا۔ اس تعلیم کو ایک کزور کی تعلیم س\\جھا جات\\ا تھ\\ا۔ لیکن مس\\یحی م\\ذہب ش\\روع ہیاومی حکومت نے تشدد کئے۔ لیکن مسیحیوں نے سے اسی اصول پر ترقی کرتا گیا۔ ر تشدد کا جواب عدم تشدد سے دیا۔ اور رومی حکومت جس کی بنی\اد تش\دد پ\\ر تھی مٹ گئی۔ لیکن مسیحی جاعت )کلیسیا( جس کی بنیاد عدم تش\\دد پ\\ر تھی پھیل\\تی چلی گئی ۔ بیان کیاجاتا ہے کہ ایک دفعہ نپولین بونا پارٹ کے ایک جرنیل نے نپولینآاپ بھی ہیں۔ سے یہ پوچھا کہ کیا سیدنا مسیح ایک ایسا ب\\ڑا ش\\خص تھ\\ا۔ جیس\\ا کہ نپولین نے جوابدیا تونے غل\\ط س\\جھا۔ میں نے ج\ان لے ک\\ر دنی\\ا ک\و فتح کرن\\ا چاہ\\ا لیکن میں مغلوب ہوگی\\ا۔ اورای\ک ہی ص\\د` میں ک\وئی ش\\خص نہیں ہوگ\\ا۔ ج\\و م\\یرے

لئے اپنی جان دینے کو تیار ہو۔ لیکن سیدنا مسیح نے اپنی ج\\ان دے ک\\ر دنی\\ا ک\\و فتح کیا۔ اس لئے جب مل\ک دنی\ا ق\ائم ہے۔ س\یدنا مس\یح کےل\ئے ج\ان دی\نے والے ہیش\ہ

رہیں گے۔ مہاتا گاندھی نے اسی تعلیم کو اپنایا اور یہ ثابت ک\\ر دکھای\\ا۔ کہ حقیقی فتح مند` تشدد میں نہیں ۔بلکہ عدم تشدد میں ہے۔ سیدنا مسیح نے یہ بتای\\ا۔ کہ ت\\یراااس\\ے اپن\\ا ااس کی زبردس\\تی ہ\\وئی ۔ لیکن ت\\و ارتہ اگر کوئی نالش میں لے لے ت\\ویہ ت\\و کااس پر ثابت ہو۔ ای\ک ک\وس اگربیگ\ار میں لے ج\\ائے چوغہ لینے دے تاکہ تیر محبت تو وہ بیگار ہے۔ لیکن تو اپنے تشدد ک\\رنے والے س\\ے محبت ث\\ابت ک\\رنے کےل\\ئے ای\\ک

ااس کے ساتھ چلا ج\\ا۔ رومی\\وں ب\اب " بلکہ اگ\ر ت\یرا دش\ن۲۱، ۲۰آایت ۱۲کوس اور ااسے پانی پلا۔ کیونکہ ایسا کرنے س\\ے ت\\و ااسے کھانا کھلایا۔ اگر پیاسا ہو تو بھوکا ہو تو آاگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بد` سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی ااس کے سر پر آاؤ" ۔ مسیحی طریقہ دشن کو جیتنے کا یہ نہیں۔ کہ کے ذریعے سے بد` پر غالب ااس س\\ے ب\\ڑ ب\\د` اس کے س\\اتھ کی ج\\ائے۔ حقیقی ط\\اقت اا س\\نے کی جتنی بد` گن\\اہ میں نہیں نیکی میں ہے۔ اگرب\\د` میں حقیقی ط\\اقت ہ\\وتی ت\\و خ\\دا س\\ب س\\ےاان میں ب\د` ہے نہیں۔ توب\\د` ک\و اگ\ر ص\حیح ط\\ور پ\ر فتح کی\ا ک\\زور ہوت\ا۔ کی\\ونکہ جاس\\کتاہے ت\\ونیکی کے ذریعہ س\\ے ہی نیکی ہی کے ذریعے انس\\ان کے دل ک\\و جیت\\اآاؤ۔ جاس\\کتاہے ۔ ب\\د` س\\ے مغل\\وب نہ ہ\\و بلکہ نیکی کے ذریعہ س\\ے ب\\د` پ\\ر غ\\الب ااسے دکھی کرو۔ بلکہ یہ بتای\\ا کہ اگ\\ر دش\\ن دشن کو جیتنے کا طریقہ یہ نہیں کہ بھوکا ہو تو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو پانی پلا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے تواپ\\نی محبت سے اس کی دشنی کو ختم کر سکیگا۔ لہذا اسی لئے کہ\\ا گی\\ا ۔ ایس\\ا ک\\رنے س\\ےآاگ ہ\\ر مخ\\الف ط\\بیعت ک\و آاگ کے انگ\اروں ک\ا ڈھ\یر لگ\ائے گ\ا۔ ااس کے س\ر پ\ر ت\و جلادیتی ہے ۔ اسی طرح دشنی کی طبیعت کو جلاڈالے گی۔اس دنیا میں تشدد کا

مقابلہ تش\\دد س\\ے ک\رنے ک\ا ن\\تیجہ یہ ہ\\وا کہ پہلے انس\\ان نے دوس\\رے انس\\ان ک\ا مق\\ابلہااس س\\ے زبردس\\ت ہ\\اتھوں س\ے کی\\ا۔تب دش\\ن کے ای\\ک ہتھی\\ار پ\\ر فتح پ\انے کےل\\ئے آاج انسان نے ایک دوسرے کا مق\\ابلہ ک\\رنے ہتھیار تیار کئے گئے ۔ اورنتیجہ یہ ہوا۔ کہ کےلئے ایس\ے ہتھی\ار بن\الئے ہیں۔ کہ اگ\ر جن\\گ چھڑج\ائے ت\و انس\ان انہیں ہتھی\\اروں سے ناصرف اپنے دشنوں کو مارے گا۔ بلکہ خود بھی ان ہتھیاروں کا شکار ہوجائے گا۔ یہ ہے تشدد سے تشدد کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ حقیقی فتح صرف تشدد کا مقابلہ ع\\دم تش\دد ہی س\ے ک\رنے میں ہ\\وگی۔ دش\نوں کے دل\\وں ک\\و جیت\نے س\ے ہی

دشنی ختم ہوسکتی ہے۔ تشدد سے دشن کے دل جیتنے نہیں جاسکتے۔آایت ۵۔ متی ۵ ۔ پڑوسی سے محبت دشن سے عداوت ۔ یہ تعلیم۴۳باب

آانے سے پہلے موجود تھی۔ تم سن چکے ہ\و کہ کہ\ا گی\ا تھ\ا۔ م\تی سیدنا مسیح کے ۔ " تم اپنے دشنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والوں کےلئے۴۸، ۴۴آایت ۵باب

آاسان پر ہے بیٹے ٹھہ\\رو۔ کی\\ونکہ وہ اپ\\نے س\\ورج دعا کرو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو ک\\و ب\\دوں اور نیک\\وں دون\\وں پ\\ر چکات\\ا ہے۔ اور راس\\تبازوں اور ناراس\\توں دون\\وں پ\\ر مینہ برساتاہے ۔ کیونکہ اگ\رتم اپ\نے محبت رکھ\\نے وال\\وں ہی س\ے محبت رکھ\\و ت\\و تہ\\ارے ل\\ئے کی\\ا اج\\ر ہے؟ کی\\ا محص\\ول لی\\نے والے بھی ایس\\ا نہیں ک\\رتے؟ اگ\\ر تم فق\\ط اپ\\نے بھائیوں ہی کو سلام ک\رو ت\و کی\ا زی\ادہ ک\رتے ہ\\و؟ کی\ا غ\یر قوم\وں کے ل\وگ بھی ایس\اآاسانی ب\\اپ ک\\ا م\\ل ہے" ابت\\دائی نہیں کرتے۔ پس چاہیے کہ تم کامل ہوجیسا تہارا تعلیم یہ ہے کہ اپنے ہم طبیعت ہم قوم، ہم مذہب ، ہم ملک سے محبت رکھو۔ لیکن دشن سے عداوت رکھو، ہم ط\\بیعت انس\انوں س\ے محبت رکھ\\نے ک\ا حکم دی\ا گی\ا۔ اگر صرف ہم طبیعت ہی س\ے محبت رکھی ج\ائے ت\و س\یدنا مس\یح نے کہ\\ا۔ تہ\\ارے لئے کیا اجر ہے۔ کیا وہ لوگ جو پاپی لوگ ہیں۔ وہ بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت نہیں کرتے ۔ کیا چ\\ور اپ\نے ہم ط\\بیعت چ\\وروں س\\ے محبت نہیں رکھ\\تے۔ کی\\ا

ڈاکو ڈاکوؤں سے محبت نہیں رکھ\\تے۔ تم کی\\ا زی\\ادہ ک\\رتے ہ\\و۔ دش\\نو ں س\\ے محبت رکھ\\نے ک\\ا حکم دیاگی\\ا۔ جس کی دلی\\ل یہ د` گ\\ئی ۔ کہ تہ\\ارا ب\\اپ )خ\\دا( ج\\و آاسان پر ہے۔ وہ اپنے سورج کو بلا امتیاز ب\دوں اور نیک\وں دون\وں پ\ر چکات\ا ہے۔اورمینہ کو راستبازوں اورناراستوں دونوں پ\\ر برس\\اتاہے۔ خ\\دا ک\ا س\\لوک اس دنی\\ا میں س\\بھوں س\\ےااس کی جسانی برکتیں ہلا امتیاز سبھوں کو ملتی ہیں۔ چاہے کوئی خ\\دا یکساں ہے۔ پرست ہوچاہے دہریہ ہو۔ خدا کی طرف سے ہ\وا۔ پ\انی، دھ\وپ ، س\بھوں ک\و مل\تی ہے۔ چاہے خدا پرست بیج بوئے چاہے بے خدا ب\\وئے س\\بھوں میں ای\\ک ہی جیس\\ا پھ\\ل پی\\دا ہوتاہے۔ اس لئے حکم دیا گیا۔ کہ تم بھی سبھوں سے بلا امتیاز محبت رکھو۔ تاکہ تمآاس\\انی ب\\اپ کام\\ل ہے۔ خدا کے ہم طبیعت بنو، اورایسے کامل ہوجاؤ۔ جیس\\ا تہ\\ارا جب سورج سبھوں پر بلاامتیاز چکتاہے ۔ اور بارش سبھوں پر بلا امتی\\از ہ\\وتی ہے۔ ت\\و دوب\\اتوں میں س\\ے ای\\ک ب\\ات ث\\ابت ہے۔ ی\\ا ت\\و خ\\دا کی یہ ط\\بیعت نہیں کہ جیس\\ی ک\\رنی ویس\\ی بھ\\رنی۔ اس ل\\ئے خ\\دا بلا امتی\\از خ\\دا پرس\\ت اوربے خ\\دا دون\\و پ\\ر س\\ورج چکات\\ا اورب\ارش برس\\اتاہے اوری\\ایہ مانن\\ا پڑیگ\\ا۔ کہ وہ ق\\ادر نہیں۔ وہ ب\\دوں پ\\ر س\\ورج ک\\و چکانا نہیں چاہتا۔وہ ناراستوں پر مینہ برسانا نہیں چاہتا۔ لیکن چونکہ وہ ق\\ادر نہیں۔ اس لئے وہ بند نہیں کرسکتا۔ وہ دہریے کو سزا دینا چاہتاہے۔ لیکن دے نہیں سکتا ۔ اگر خدا قادر نہیں۔ تو وہ خدا کہلانے کا مس\\تحق نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہااس میں ب\د` ہے قادر تو ہے۔ لیکن وہ ب\د` ک\ا مق\ابلہ ب\د` س\ے نہیں کرت\ا۔ کی\ونکہ

۔" مگ\\ر کس\\ی۸، ۷آایت ۵نہیں۔ بلکہ بد` کا مقابلہ نیکی سے کرت\\اہے۔ رومی\\وں ب\\اب راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا۔ مگر ش\ائد کس\ی نی\ک آادمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دی\\نے کی ج\\رات ک\\رے۔لیکن خ\\دا اپ\\نی محبت کی خوبی ہم پریوں ظ\\اہر کرت\\اہے۔ کہ جب ہم گنہگ\\ارہی تھے ت\\و مس\\یح ہ\\ار خ\\اطر

" جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھت\\اہے وہ خ\\ونی ہے۱۵آایت ۳یوحنا باب ۱موا"۔

" مگ\\ر تم ربی نہ۹، ۸آایت ۲۳اوربھائی سے انجیل مقدس میں مراد یہ ہے ۔ م\\تی ب\\اب کہلاؤ کیونکہ تہارا استاد ایک ہی ہے اورتم سب بھائی ہو اور زمین پ\\ر کس\\ی ک\\و اپن\\ا

آاسانی ہے"۔ باپ نہ کہو کیونک تہارا باپ ایک ہی ہے جو " چ\ور ک\رنے والا پھ\\ر چ\ور نہ ک\رے بلکہ اچھ\\ا پیش\ہ۲۸: ۴۔ افس\یوں ۶

ااس کے پ\اس اختیار ک\رکے ہ\\اتھوں س\\ے محنت ک\رے ت\اکہ محت\\اج ک\و دی\نے کےل\ئے کچھ ہو"۔تام مذاہب میں یہ تعلیم پائی جاتی تھی۔ کہ چور نہ کرو۔ انجی\\ل مق\\دس میں یہ کہا گیا کہ نہ صرف چور کرن\\ا گن\\اہ ہےبلکہ یہ کہ\\ا۔ کہ اچھ\\ا پیش\\ہ اختی\\ار نہ کرکے ہاتھوں سے محنت نہ کرنا یہ بھی گناہ ہے ۔ بلکہ یہاں تک کہ کہہ دی\ا ہے۔ کہ نہ صرف چ\\ور ک\رنے والا پھ\\ر چ\ور نہ ک\\رے۔ بلکہ اچھ\\ا پیش\ہ اختی\\ار ک\رکے ہ\\اتھوں س\ے محنت ک\رے اور اپ\نی نی\ک ک\ائی میں س\ے محت\اج کی م\دد ک\رے۔ اگراپ\نی محنت س\\ے اپن\\ا ہی پیٹ پالت\\اہے۔ اورمحت\\اج کی احتی\\اج ک\\و رف\\ع نہیں کرت\\ا۔ ت\\ویہ بھی

" جس کس\ی کے پ\اس دنی\ا ک\ا۱۸، ۱۷آایت ۳حکم عدولی ہے اورگناہ ہے یوحن\\ا ب\اب ااس میں مال ہو وہ اپ\\نے بھ\\ائي ک\\و محت\\اج دیکھ ک\ر رحم ک\رنے میں دری\\غ ک\\رے ت\و خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے۔ اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی س\\ے نہیں بلکہ ک\ام اور س\چائی کے ذریعہ س\ے بھی محبت رکھیں ۔ بعض ل\وگ بالک\ل خ\یرات نہیں کرتے بعض دکھاوے کےلئے خیرات ک\\رتے ہیں۔ س\\یدنا مس\\یح نے حکم دی\\ا کہ

" خ\\بردار اپ\\نے راس\\تباز۴، ۱آایت ۶خیرات پوشیدگی میں کرنی چاہیے۔ م\\تی ب\\اب آادمیوں کے سامنے دکھانے کےلئے نہ کرو۔ نہیں تو تہارے ب\\اپ کے پ\\اس کے کام ااج\\ر نہیں ہے۔ پس جب ت\\و خ\\یرات ک\\رے ت\\و اپ\\نے آاسان پرہے تہارے لئے کچھ جو اان آاگے نرسنگا نہ بجوا جیساریاکار عبادتخانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں۔ تاکہ ل\\وگ کی ب\\ڑائی ک\\ریں۔ میں تم س\\ے س\\چ کہت\\اہوں کہ وہ اپن\\ا اج\\ر پ\\اچکے۔ بلکہ جب ت\\و

ااس\ے ت\یرا بای\اں ہ\\اتھ نہ ج\انے اس ص\ورت خیرات کرے تو وہ جو تیرا دہن\ا ہ\\اتھ کرت\اہے میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا"۔

" پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپ\\نے۲۵آایت ۱۴۔ افسیوں باب ۷آادم آاپس میں ای\\ک دوس\\رے کے عض\\و ہیں"۔ ب\\نی پڑوس\\ی س\\ے س\\چ ب\\ولے کی\\ونکہ ہم اعضائے ایک دیگراند مسیحی مذہب یہ سکھاتاہے کہ جھوٹ ہر صورت ہر ح\\الت میںااس\ے ہ\ر گناہ ہے۔ اس لئے ہر شخص کےلئے حکم ہے کہ وہ جھوٹ بولنا چھ\وڑ دے اور

" ای\\ک دوس\\رے۱۰، ۹آایت ۳صورت اورہر حلت میں سچ بولنا چاہیے ۔ کلس\\یوں ب\\اب ااس کے ک\\اموں س\\یت ات\\ار ڈالا اپرانی انسانیت کو سے جھوٹ نہ بول۔ کیونکہ تم نے اور نئی انسانیت کو پہن لیا۔ جو معرفت حاصل کرنے کےل\\ئے اپ\\نے خ\\الق کی ص\\ورت پر بنتی جاتی ہے" پس جھوٹ بولنا چھوڑکر سچ بولنے کی دووجوہات بی\\ان کی گ\\ئیں۔ اول کہ جھوٹ بولنا دھوکا دینا ہے۔ اور چ\ونکہ ہم انس\\ان ای\ک دوس\\رے کے اعض\ا ہیں۔ اور اعضا ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتے اس لئے جھوٹ بولنا چھ\\وڑ ک\\ر ہ\\ر ش\\خص اپنے پڑوسی سے سچ بولے۔ دوسر وجہ یہ بیان کی گئی ۔ کہ خالق کی ص\\ورت یع\\نی خالق کی طبیعت پر مسیح کے پیروؤں کی طبیعت بن\\نی چ\\اہیے۔ چ\ونکہ خ\\دا س\\چا

' تاکہ دوبے تبدیل چیزوں کے باعث جن کے ب\\ارے میں۱۸آات ۶ہے ۔ عبرانیوں باب خدا کا جھوٹ بولنا مکن نہیں ہ\ار پختہ ط\\ور س\ے دل جعی ہوج\\ائے ج\\و پن\\اہااس امی\\د ک\\و جوس\\امنے رکھی ہ\\وئي ہے۔ قبض\\ہ میں لی\\نے ک\\و اس ل\\ئے دوڑے ہیں کہ ااس کے پیروؤں کی طبیعت میں ہر ح\\الت اور ہ\\ر ص\\ورت میں س\\چائی ہ\\ونی لائق"۔

چاہیے۔ " اپنے واسطے زمین پر مال ج\\ع نہ۲۱سے ۱۹آایت ۶۔ دولت : متی باب ۸

ک\\رو۔ جہ\\اں ک\\یڑا اور زن\\گ خ\\راب کرت\\اہے۔ اور جہ\\اں پ\\ر چ\\ورنقب لگ\\اتے اور چ\\راتےآاسان پر مال جع کرو۔ جہاں نہ کیڑا خراب کرتاہے نہ زن\\گ اور ہیں ۔ بلکہ اپنے لئے

نہ وہاں چور نقاب لگاتے اور چ\\راتے ہیں۔ کی\\ونکہ جہ\\ان ت\\یرا م\\ال ہے وہیں ت\\یرا دل بھیآادمی دوم\\الکوں کی خ\\دمت نہیں۲۴آایت ۶لگ\\ا رہے گ\\ا۔۔۔۔۔۔ م\\تی ب\\اب " ک\\وئی

کرسکتا۔ کیونکہ یا توایک سے عداوت رکھے گ\\ا اور دوس\\رے س\\ے محبت یاای\\ک س\\ے ملارہے گا اور دوسرے کو ناچیز ج\انے گ\\ا۔ تم خ\\دا اور دولت دون\\و کی خ\\دمت نہیں کرسکتے" اگر زندگی کا مقصد یہ سجھ لیا جائے کہ دولت جع کرنا ہی ہے۔ تو یہ گناہ ہے۔ دوسرے لوگوں کی ض\\روریات ک\\و نہ محس\\وس ک\\رتے ہ\\وئے دولت ج\\ع ک\\رتےآاسان پر ج\\ع ک\\رو۔ جس ک\\ا مطلب یہ جانا گناہ ہے۔ بلکہ یہ حکم دیا گیا۔ اپنا مال

" اورنیکی کر۔ اور اچھے کاموں میں دولتند ب\\نیں۔ اور۱۸آایت ۶تیتھیس باب ۱ہے " تد ہ\\وں" یع\\نی محت\\اج لوگ\وں کی احتی\اجیں ک\و اپ\نی سخاوت پر تیار اور امداد پر مس\تع

آاسان پر خ\\زانہ ج\\ع کرن\\ا ہے۔ "۱۷آایت ۳یوحن\\ا ب\\اب ۱دولت کے ذریعہ سے پورا کرنا جس کسی کے پاس دنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محت\\اج دیکھ ک\ر رحم ک\رنے میں دری\\غ ک\\رے ت\\و اس میں خ\\دمت کی محبت کی\\ونکر ق\\ائم رہ س\\کتی ہے" س\\و حقیقی دولت من\\د ہون\\ا اچھے ک\\اموں میں دولت من\\د ہون\\ا ہے۔ ج\\و س\\خاوت اور ام\\داد ک\\رنے والے ہیں۔ حقیقی دولت ایس\\ے لوگ\\وں کے پ\\اس ہے۔ جن کی دولت ک\\و نہ ک\\یڑا لگتا نہ زنگ خراب کرتانہ چور نہ نقب لگاتے اور چ\راتے ہیں۔ ع\ام خی\ال یہ پای\ا جات\اہے کہ دولت کی ناجائز تقسیم سارے دکھوں کا سبب ہے۔ لیکن اصل سبب انسان کی

آایت۶تیتھیس ب\\اب ۱بگڑ ہ\\وئی ط\\بیعت ہے جس کی وجہ س\\ے محبت ہ\\وتی ہے ۔ " زرکی دوستی ہ\\ر ط\\رح کی ب\\رائی کی ج\ڑ ہے" اس ع\\داوت او رنف\\رت میں ام\یر اور۱

غریب بلاامتیاز گرفتار ہیں۔ دولت اگر خادم ہو۔ تو بہت اچھی ہے۔ جس سے دوس\\رے انس\\انوں کی اور اپ\\نی خ\\دمت ہوس\\کے۔ خ\\ادم تب ہی ہ\\وگی اگ\\ر دولت کی بج\\ائےاان کی خدمت کےلئے اس\\تعال کی ج\\ائے تب دولت انسانوں سے محبت اور دولت خ\\ادم ہ\\وگی۔ اورانس\\انوں کی خ\\دمت ک\\و خ\\دا کی خ\\دمت کہ\\ا گی\\ا ہے۔ م\\تی ب\\اب

" چونکہ تم نے میرے ان سب س\\ے چھ\\وٹے بھ\\ائیوں میں س\\ے کس\\ی ای\\ک۴۰آایت ۲۵ کے ساتھ یہ سلوک کیا ۔ اس لئے میرے ہی ساتھ کیا" بگاڑ کی وجہ یہ ہے کہ انس\\ان بجائے انسان سے محبت کرنے کے دولت سے محبت کرنے لگ گیا۔ اور وہی س\\ارے بگاڑ کی جڑ ہے۔ محتاجوں کی احتیاج پر غور کئے بغیر دولت کے انبار لگ\\ائے چلے

آایت۱۹جانا یہ گناہ ہے۔ اسی لئے دولتن\\د س\\ے س\\یدنا مس\\یح نے کہ\\ا " م\\تی ب\\اب " اگر توکام\ل ہون\ا چاہت\اہے ت\و ج\ا اپن\ا م\ال اس\باب بیچ ک\ر غریب\وں ک\و دے تجھے۲۱

آاکر میرے پیچھے ہولے" جس نظام میں دولت من\\د انس\\ان آاسان پر خزانہ ملے گا۔ اور بغیر غریبوں کی ضروریات پر غور کئے روپیہ جع ک\\رتے چلے ج\\اتے ہیں۔ یہ غریب\\وں ک\\ااان کا خون بہانا ہے۔ یہ بگڑا ہوا نظام ہے۔ بگڑا ہوا نظ\\ام اس ل\\ئے خون پینا ہے۔ اوریہی ہے۔ کہ یہ گبڑے ہوئے انسان کا بنایا ہوا نظام ہے۔ اس کے برخلاف اگر غریبوں کا زور چلے اور وہ دولت من\\دوں کی دولت ک\\و ل\\وٹ لیں۔ ت\\ویہ بھی گن\\اہ ہے۔ جس نظ\\ام میںآایا۔ وہ\\اں انس\انوں کے خ\\ون کی ن\\دیاں بہیں۔ اوریہ بھی گن\\اہ ہے۔اس بھی ایسا انقلاب میں بھی محبت انسان سے نہیں۔ بلکہ دولت سے ہے۔ دولت مند اس غلط فہی میں گرفتار ہوگئے ۔ کہ دولت کو بغیر غریبوں کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے جع ک\\رتے جانا کوئی گناہ نہیں۔ اس کے برخلاف غریب اس غلط فہی میں گرفتار ہوگئے ۔ کہ دولت من\\د کی دولت ک\\و زبردس\\تی چھین لین\\ا ک\\وئی گن\\اہ نہیں۔ یہ دون\\وتعلییں غل\\ط ہیں۔ دون\وں کی بنی\اد انس\ان س\ے نف\رت اور دولت س\ے محبت ہے اور دولت کے لالچآاک\\ر ام\\یر غ\\ریب ک\\ا خ\\ون پیت\\اہے۔ اور غ\\ریب دولت کےلالچ میں ام\\یر ک\\ا خ\\ون میں

آایت ۱۹کرتاہے۔ س\یدنا مس\یح نے کہ\ا ۔ م\تی ب\اب " اور یس\وع نے اپ\نے ش\اگردوں۲۳ سے کہا" میں تم سے سچ کہتاہوں ۔ دولت مند کا خدا کی بادش\\اہی میں داخ\\ل ہون\\اااس\\ے دولت مشکل ہے" اب س\\وال پی\\داہوتاہے کہ انس\ان کے پ\\ا س کت\\نی دولت ہ\\و تو من\\د کہ\\ا ج\\ائے گ\\ا۔ اوربق\\ول س\\یدنا مس\\یح وہ خ\\دا کی بادش\\اہی میں داخ\\ل نہ ہوگ\\ا۔

" زر کی دوس\\تی ہ\\ر ط\\رح کی ب\\رائی کی ج\\ڑ ہے" ت\\و دولت۱۰آایت ۶تیتھیس ب\\اب ۱ مندر ہونے کا تعلق ایک مقدار شےسے نہیں ہے۔ انجی\\ل مق\\دس میں یہ کہیں نہیںم لگای\\ا ااس پر یہ فت\\و بتایا گیا۔ کہ کس کے پاس کتنی دولت ہونی چاہیے۔ جس سے جاسکے۔ کہ یہ خدا کی بادش\\اہی میں داخ\\ل نہیں ہوس\\کتا۔ ج\\و دولت من\\دت انجی\\لااس کے دولت مندہونے ک\\ا تعل\\ق دولت کی مق\\دار س\\ے مقدس میں بیان کیا گیا ہے ۔ نہیں۔ بلکہ ط\\\بیعت س\\\ے ہے۔ زر کی دوس\\\تی ب\\\رائی کی ج\\\ڑ ہے۔ دولت کے متعل\\\قااس\\ے ہ\\اتھ لگان\ا بھی گن\\اہ ہے۔ ای\ک ابر ہے لح\\اظہ دوط\رح کے فلس\فے ہیں۔ دولت دفعہ ایک نوجوان سادھو مجھے ریل گاڑ میں اتفاق سے م\ل گی\\ا۔ میں انجی\\ل مق\\دسااسے کہ\\ا کہ تن گفتگو میں نے ااس نے دریافت کیا۔ یہ کیا کتاب ہے۔ دورا پڑھ رہا تھا۔ ااسے ہاتھ لگانا بھی پاپ ہے۔ لہذا میں کبھی اس ابر ہے یہاں تک کہ دولت بے حد آاپ نے ٹکٹ خری\\دا ہے۔ کہ\\ا نہیں۔ میں نے ک\\و ہ\\اتھ نہیں لگات\\ا۔ میں نے کہ\\ا۔ کی\\ا ااس نے اپنے چند ایک نوجوان چیلوں کی کہا بغیر ٹکٹ سفر کرنا قانون شکنی ہے۔ اانہ\\وں نے م\\یرے ل\\ئے ٹکٹ خری\\دا ہے۔ میں نے کہ\\ا اگ\\ر طرف اشارہ ک\\رکے یہ کہ\\ا۔ آاپ کے فائدہ آاپ تو گناہ سے بچ گئے ہیں۔ لیکن دولت کو ہاتھ لگانا بھی گناہ ہے توابر نہیں ہے ۔ اگ\\\ر دولت کےل\\\ئے چیلے گن\\\اہ میں گرفت\\\ار ہیں ۔ میں نے کہ\\\ا دولت تث ب\\رکت ہے۔ اس ابر ہے۔ اگ\\ر خ\\ادم ب\\نی رہے ت\\و ب\\اع آادمی کی مال\\ک بن ج\\ائے ت\\و نےکہا یہ نئی تعلیم ہے۔ اورانجیل مق\\دس پڑھ\نے ک\\ا وع\دہ ک\رکے مجھ س\ے وہ س\\ادھو جی انجیل مقدس لے گئے۔ دوسرا فلسفہ جو اس کے خلاف ہے۔ یہ بتایاہے۔کہ چ\\ونکہ س\\ب ک\\ام دنی\\ا میں دولت س\\ے چل\\تے ہیں۔ اس ل\\ئے دولت کی ہیں بے ح\\د ق\\درنیااس کی پوج\\ا چ\\اہیے۔ لہ\\ذا ایس\\ے لوگ\\وں نے دولت ک\\و لکش\\ی ک\\ا درجہ دے دی\\ا اورابرا۔ دولت ب\\ذات خ\\ود ہی نہ ک\\رنے لگے۔ مس\\یحیت دولت ک\\و نہ اچھی کہ\\تی ہے نہ ارے ک\\ا تعل\\ق جان\دار اش\\یاء س\\ے ابی ۔ کی\\ونکہ بے ج\\ان ہے۔ اچھے اورب\ اچھی ہے نہ

ابر ہے ۔ ہوتاہے اگر شے کا صحیح استعال ہو۔ تواچھی ہے اگر غل\\ط اس\\تعال ہ\\و ت\\و یہاں تک کہ زہر بھی اگر اسکا صحیح استعال ہوتو اچھی ہے۔ لیکن غلط اس\\تعالابرا بنادیت\\اہے۔ اگ\\ر دولت خ\ادم ااسے اچھایا تث ہلاکت ہے۔ دولت کا استعال ہی باعااس ش\\خص کےل\\ئے ۔ خان\\دان کےل\\ئے اور مل\\ک کی طرح اس\\تعال کی ج\\اتی ہے ت\\و ابر ہے نہ لکش\\ی ہے۔ اگ\\ر محبت تث لعنت بن ج\\اتی ہے۔ دولت نہ کےل\\ئے ب\\اعتث ب\رکت اان کی خدمت کےلئے استعال ہوتی ہے تو باع انسانوں کے ساتھ اور دولت

تث لعنت ہے۔ ہے۔ اگر محبت ودولت کے ساتھ ہو تو باع " پس اگر تو قرب\\ان گ\\اہ پ\\ر اپ\\نی ن\\ذر۲۴۔ ۲۳آایت ۵۔ عبادت : متی باب ۹

آائے کہ م\\یرے بھ\\ائی ک\\و مجھ س\\ے کچھ ش\\کایت ہے۔ گذارتا ہو۔ اور وہاں تجھے یاد آاگے اپنی نذر چھوڑ دے اورج\\اکر پہلے اپ\\نے بھ\\ائی س\\ے ملاپ تو وہیں قربان گاہ کے آاک\\ر ن\\ذر گ\\ذران "۔ یہ\\اں مطلب یہ ہے کہ جب ت\\و عب\\ادت ک\\رنے کےل\\ئے ک\\ر ۔ تب آائے کہ م\یرے بھ\\ائی ک\و مجھ س\ے خدا کے گھر میں جائے تو اگر تجھے وہاں ی\اد کچھ شکایت ہے تو وہیں عبادت کو چھوڑ دے اورجاکر اپ\نے بھ\ائی س\ے ملاپ ک\ر۔آاکر عبادت ک\ر۔ جب ت\ک ت\یرا بھ\\ائی س\ے ملاپ نہیں ہوت\ا خ\دا س\ے ملاپ نہیں تب آادمی\وں کے س\اتھ می\\ل ہوسکتا۔ انجیل مقدس میں لکھ\\اہے ۔ تم اپ\نی ط\\رف س\\ے س\ب ملاپ رکھو۔ ہم لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ہارے ساتھ می\\ل ملاپ رکھیں۔ لیکن ہم اپنی طرف سے یہ کرس\کتے ہیں۔ کہ کس\ی کےل\\ئے ہم اپ\نے دل میں نف\\رت نہ رکھیں۔ عبادت کرنے کےلئے پہلی بات یہ بت\\ائی گ\\ئی ہے ۔ کہ حقیقی عب\\ادت ک\\رنے کےلئے میل ملاپ رکھنا ضرور ہے۔ مسیحی عبادت کا تعل\\ق نہ ت\\و جگہ کے س\\اتھ ہے۔ کہ ای\\ک خ\\اص جگہ پ\\ر عب\\ادت ک\\رنے س\\ے عب\\ادت ہ\\وتی ہے اور دوس\\ر جگہااس کی عب\\ادت ک\\رنے س\\ے قب\\ول نہیں ہ\\وتی ۔ خ\\دا ہ\\ر جگہ حاض\\ر ہے۔ پس ہ\\ر جگہ عب\\ادت کی جاس\\کتی ہے۔ پس مس\\یحی عب\\ادت کس\\ی خ\\اص جگہ س\\ے تعل\\ق نہیں

رکھتی۔ مسیحی عبادت کا کسی خاص زب\\ان س\\ے بھی تعل\\ق نہیں کہ مقب\\ول عب\\ادت وہی ہو۔ جو خاص بولی میں کی جائے۔ خدا سار بولیوں کو جانتاہے۔ وہ ہر بولی ک\\و س\\جھ س\\کتا ہے۔ اس کی اپ\\نی ک\\وئی خ\\اص ب\\ولی نہیں۔ جس ب\\ولی میں بھی ہمااسی بولی میں وہ مقبول ہوسکتی ہے۔ اسلئے مس\یحی م\ذہب ہی ایس\ا عبادت کریں۔ مذہب ہے جس میں ہر بولی میں ن\\ا ص\\رف عب\\اد ت کرن\\ا ج\\ائز ہے۔ بلکہ دنی\\ا کی ہ\\ر ب\\ولی میں عب\\ادت کی ج\\اتی ہے۔ مس\\یحی عب\\ادت ک\\ا تعل\\ق ظ\\اہرا رس\\ومات س\\ے بھیاان نہیں۔ کہ کن رسومات کے مطابق عباد ت کی جائے تو قب\\ول ہ\\وتی ہے ۔ اور اگ\\ر رسومات کونہ مانا جائے تو نامقبول ہوتی ہے۔ رسومات زم\\انے اورمل\ک کے ح\\الات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ خدا ظاہر چیزوں کو دیکھ کر دھوکا نہیں کھاسکتا۔ وہ تو عابد )عبادت کرنے والا ( کے دل کودیکھتاہے۔ تو مقبول عبادت کےلئے جب س\\یدنا

ااس س\ے کہ\ا ۔۲۰، ۱۹آایت ۴مسیح سے یہ سوال کی\ا گی\ا۔ یوحن\ا ب\اب ۔ ع\ورت نے ( نے اس اے خداون\\د مجھے معل\\وم ہوت\\اہے ۔ کہ تون\\بی ہے۔ ہ\\ارے ب\\اپ دادا )س\\ار پہاڑ پر پرستش کی اورتم )یہود` کہتے ہ\\و ۔ کہ وہ جگہ جہ\\اں پرس\\تش کرن\\ا چ\اہیے یروش\لیم میں ہے۔ یہ\\اں س\امر ع\\ورت مقب\\ول عب\ادت ک\ا تعل\ق جگہ س\ے بت\\اتی ہے۔تہ گ\\رزیم پ\\ر کی ااس عبادت کو قبول کرت\\اہے ۔ ج\\و ک\\و سار سجھتے ہیں کہ خدا ااس عب\\ادت کوقب\\ول کرت\\اہے ۔ ج\\و ج\\اتی ہے۔ لیکن یہ\\ود` یہ س\\جھتے تھے کہ خ\\دا

آایت ۴یروشلیم میں کی جاتی ہے۔ لیکن یوحنا باب ااس س\\ے کہ\\ا۲۴، ۲۱ " یسوع نے آاتا ہے کہ تم نہ تو اس پہ\\اڑ پ\\ر ب\\اپ " اے عورت! تیر اس بات کا یقین کرکہ وہ وقت ااس کی پرس\\تش ک\\رتے ہ\\و۔ کی پرستش کروگے اورنہ یروشلیم میں تم جسے نہیں جانتے ااس کی پرس\\تش ک\\رتے ہیں۔ کی\\ونکہ نج\\ات یہودی\\وں میں اورہم جس\\ے ج\\انتے ہیں ۔ آاتاہے بلکہ اب ہی ہے۔ کہ س\\چے پرس\\تار ب\\اپ کی پرس\\تش روح سے ہے۔ مگر وہ وقت اور سچائی سے کریں گے ۔کی\\ونکہ ب\\اپ اپ\نے ل\ئے ایس\ے ہی پرس\\تار ڈھون\ڈتاہے۔ خ\دا

ااس کی پرس\\\\تش روح ہے ۔ اور ض\\\\رور ہے کہ اس کے پرس\\\\تار روح اور س\\\\چائی س\\\\ے کریں۔ یہاں سیدنا مسیح نے صاف طور پر بتایاکہ مقبول عبادت کا تعلق عبادت کرنے والوں کی روح کے ساتھ ہے۔ اور خدا باپ کو ایسے ہی پرستار پسند ہیں۔ ج\\و روح اورااس کی پرستش کریں۔ اگر روح اور سچائی کے ساتھ اور انسانوں سے میل سچائی سے ملاپ کرکے پرستش کی جائے خواہ کسی ملک میں ہو۔ کس\\ی جگہ ہ\\و۔ کس\\ی ب\\ولی میں ہو۔ وہ اس لئے مقبول ہ\\وگی۔ کی\ونکہ خ\دا ہ\\ر جگہ ہے ۔ س\ب بولی\\اں س\جھتاہے۔ ظاہراریت ورسومات سے خوش نہیں ہوگا۔ بلکہ روح اور راستی سے پرستش کرنے والوں

کی پرستش کو قبول کرے گا۔ : جس پروردگ\\ار نے دنی\\ا۲۶ت\\ا ۲۴آایت ۱۷۔ خ\\دا ک\\ا گھ\\ر: اع\\ال ب\\اب ۱۰

آاسان اور زمین ک\ا مال\ک ہ\\وکر ہ\\اتھ کے بن\ائے ہ\\وئے اوراس کی سب چیزوں کو پیدا وہ آادمی\\وں کے ہ\\اتھوں س\\ے خ\\دمت مندروں میں نہیں رہتا۔ نہ کسی چیز کا محت\\اج ہ\\وکر لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ عطا کرت\\ا ہے ۔ اورآادمیوں کی ہر ایک قوم تام روئ زمین پر رہنے کے لئے پی\\دا اس نے ایک ہی اصل سے

"۔ توبتای\\ا گی\\اکہ خ\\دا ج\\وکی اور ان کی میع\\اد یں اورس\\کونت کی ح\\د یں مق\\رر کیں آاسان اور زمین کا مالک ہے۔ ہاتھ کے بنائے ہوئے مک\\انوں میں نہیں رہت\\ا۔ جن مک\\انوںاا گرجا گھر، جو خدا ک\ا گھ\\ر کہلات\اہے اس ک\ا کو ہم خدا کے مکان کہتے ہیں۔ مثلااس\\ی گھ\\ر میں ہے اور کس\\ی جگہ نہیں۔ وہ ت\\و ہ\\ر یہ مطلب نہیں ۔ کہ خ\\دا ص\\رف جگہ ہے۔ پھر ایک خاص جگہ کو خدا کا گھر کی\\وں کہ\\ا جات\\اہے۔ اس امتی\\از کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہونی چاہیے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ گرج\\ا گھ\\ر ک\\و ہم اس ل\\ئے خدا کا گھر کہ\\تےہیں ۔ کی\ونکہ یہ\اں خ\دا کی پرس\تش کی ج\اتی۔ دراص\ل یہ گھ\\ر بھی انسانی گھروں کی طرح سے انسانوں ہی کا بنایا ہواہے۔ اورانسانوں ہی کےلئے بنای\\اااس\ے خ\دا ک\ا گھ\\ر گیا ہے۔ محض پرستش کےلئے مخص\وص ک\رنے کی وجہ س\ے ہم

آایت۷کہ\\تےہیں۔ ورنہ یہ س\ب انس\ان کے بن\\ائے ہ\\وئے انس\انی گھ\\ر ہیں۔ اع\ال ب\اب می ہاتھ کے بنائے ہوئے گھروں میں نہیں رہتا۔ چن\\انچہ۴۹، ۴۷آایت ۔ "لیکن بار تعال

آاس\ان م\یرا تخت اور زمین م\یرے پ\اؤں تلے کی نبی کہتاہے ۔ کہ خداوند فرمات\اہے کہ آارام گ\اہ ک\ون س\ی ہے" انجی\ل چوکی ہے۔ تم میرے لئے کیسا گھر بناؤ گے ی\ا م\یر مقدس میں انسان کو خدا کا گھر کہا گیا ہے۔ خدا اینٹوں اور لکڑ کے مکانوں میں

" کی\\ونکہ ہم خ\\دا ک\\ا۱۶آایت ۶کرنتھی\\وں ب\\اب ۲نہیں رہت\\ا۔ بلکہ انس\\انوں میں رہت\\اہے۔ اان میں اان میں بس\\وں گ\\ا۔ اور مق\\دس )گھ\\ر( ہیں۔ چن\\انچہ خ\\دا نے فرمای\\ا ہے۔ کہ میں اامت ہ\\ونگے"۔ خ\\دا اینٹ\\وں او اان ک\\ا خ\\دا ہونگ\\ا۔اور وہ م\\یر چل\\وں پھرونگ\\ا اور میں اان میں چلت\\\ا پھرت\\\اہے ۔ رپتھ\\\روں کے مک\\\انوں میں نہیں۔ بلکہ انس\\\انوں میں رہت\\\ا اور

ااس کے گھ\\ر ک\\ا مخت\\ار ہے اور۶آایت ۳ع\\برانیوں ب\\اب " لیکن مس\یح بی\\ٹے کی ط\\رح اس کا گھر ہم ہیں"۔ مسیحیت نے گرجا گھروں ، مسجدوں ،مندروں ، گ\\وردواروں ک\\و ب\\ڑا درجہ نہیں دی\\ا۔ بلکہ انس\\ان ک\\و بہت ب\\ڑا درجہ دی\\ا ہے۔ پھ\\ر انجی\\ل مق\\دس میںااس میں ہ\\ر ای\ک ع\ارت م\ل ملا ک\ر خداون\\د میں ای\ک پ\اک مق\\دس بنت\\ا لکھاہے ۔ ااس میں باہم تعیر کئے جاتے ہو۔ تاکہ روح میں خدا ک\\ا مس\\کن جاتاہے۔اور تم بھی ہو۔ پہلے ایک ایک انسانی زندگی ک\و خ\دا اپن\ا گھ\ر بنات\اہے۔ یع\نی خ\دا کے لوگ\وں کی رن\\دگیاں اینٹ\\وں کی مانن\\د ہیں۔ تب ان ہی زن\\دگیوں س\\ے اپن\\ا گھ\\ر بنات\\اہے۔ جس

" تم بھی زن\\دہ پتھ\\روں کی۵آایت ۲پط\\رس ب\\اب ۱طرح اینٹوں سے گھر بنای\\ا جات\\اہے۔ طرح روحانی گھر بنتے جاتے ہو" تو زندہ پتھر سے مراد انسانی زن\\دگی اور انس\\ان ہی خداکا روحانی گھر ہے۔ توکیا یہ بے وقوفی کا فعل نہ ہوگا۔ اگرانسان اپ\\نے بن\\ائے ہ\\وئے گھر یعنی گرج\ا گھ\\ر ، من\در ، مس\جد ، گ\وردارہ کی حف\\اظت کےل\ئے انس\ان ج\وااس ک\\ا نقص\\ان ک\\رے۔ اوربہت افس\\وس ااس کی بے ع\\زتی ک\\رے۔ اور خدا کا گھر ہے آاک\ر اپ\نے ہ\\اتھوں کے سے کہنا پڑت\اہے۔ بعض اوق\ات انس\ان غل\ط م\ذہبی ج\وش میں

بنائے گھروں یعنی مسجدوں مندروں، گورداروں اور گرج\\اگھروں کی حف\\اظت کےل\\ئے خدا کے حقیقی گھر انسان کو قتل وغارت کردیت\\اہے۔ اگ\\ر خ\\دا کے گھ\\روں کی ق\\در کرنی ہے توانس\\انوں کی ق\\در ک\\رنی چ\اہیے۔ اگ\\ر خ\\دا کے گھ\\ر ک\و ص\اف کرن\\ا ہے ت\\و انسان کو بھلائی کا خیال کرے۔ اگر خدا کے گھر کی خدمت کرنی ہے۔ تو انسانوں کی خدمت کرے۔ اگر خدا کے گھر کےلئے غیرت ہے۔ توانسان کے لئے غیرت ہ\\ونی چاہیے۔ اگر خدا کے گھر سے محبت کرنی ہے تو انسانوں سے محبت ک\\رنی چ\\اہیے ۔

کیونکہ انسان ہی حقیقت میں خدا کا گھر ہے۔ "۳۲س\\ے ۲۵آایت ۶۔ خدا پر بھروسہ رکھنے کے بارے میں بتایا۔متی باب ۱۱

اس لئے میں تم سے کہتا ہوں اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھ\\ائیں گے ی\\ا کی\\ا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوش\\اک سے بڑھ ک\\ر نہیں؟ ہ\\وا کے پرن\\دوں ک\\و دیکھ\\و نہ ب\\وتے ہیں نہ ک\\اتتے ۔ نہ کوٹھی\\وں میں جع کرتے ہیں تو بھی تہارا پروردگار ان کو کھلاتا ہے ۔ کی\ا تم ان س\ے زی\ادہ ق\\در نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فک\\ر ک\\رکے اپ\\نی ع\\ر میں ای\\ک گھ\\ڑ بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لئے کی\وں فک\ر ک\\رتے ہ\\و ؟ جنگلی سوس\ن کے درخت\وں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طر ح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت ک\\رتے نہ ک\\اتتے ہیں۔ ت\\و بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیان بھی ب\\اوجود اپ\\نی س\\ار ش\\ان وش\\وکت کے انآاج ابس نہ تھا۔پس جب پروردگار میدان کی گھاس کو ج\\و میں سے کسی کی مانند مل ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقاد و تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اسلئے فکر مند ہوکر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کی\\ا پ\\یئں گے یاکیا پہ\\نے گ\\ئے ؟ کی\\ونکہ ان س\\ب چ\\یزوں کی تلاش میں مش\\رکین رہ\\تے ہیں اور

تہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔

سیدنا مسیح ایک بہت بڑے فلاسفر بھی تھے۔ انہو ں نے معولی معولی مثالوں سے بڑ بڑ معرفت کی حقیقتیں بیان کیں۔ برہو ساج کا لی\\ڈر کیش\\پ چندر سین کہتاہے ۔ کہ معرفت کے انول موتی جو برس\وں مط\العہ ک\رنے س\ے نہیں ملتے وہ سیدنا مسیح کے قدموں میں چن\\د لحے بیٹھ\\نے س\ے م\ل ج\\اتے ہیں۔ فط\\رتآاس\\انی ب\\اپ ہے۔ وہ درخت\\وں اور کی مثالیں دے کر یہ بات واضح کرد` کہ تہارا ااس\ے اان س\ے زی\ادہ ہے۔ لہ\\ذا تہ\\ار پرندوں کا فکر کرتاہے اور چونکہ تہ\ار ق\درتو بہت فکر ہے۔جس نے تہیں بدن دی\ا ہے وہ ض\رور ب\دن ک\و ڈھ\اپنے کےل\ئے پوش\اک دے گا۔ جس نے تہیں جان د` ہے۔ وہ ج\ان کے قی\ام کےل\ئے ض\رور خ\وراک بھی دے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے ۔ کہ اس بات پ\\ر ای\\ان رکھ\\ا ج\\ائے کہ خ\\دا ہے وہ قادر ہے۔ وہ تہار ضروریات کو جانتاہے۔اوراس لئے خدا پر بھروسہ کرنے وال\\وں ک\\وااس نے یہ بھی کہا۔ اپنی فکر مجھ پ\\ر ڈال دو۔ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ

" ان چ\\یزوں کی۳۲آایت ۶، م\\تی ب\\اب ۷: ۵پط\\رس ۱کیونکہ مجھے تہ\\ارا خی\\ال ہے۔ آاس\\انی ب\\اپ جانت\\اہے کہ تم ان چ\\یزوں کے تلاش میں غ\\یر قوم\\وں رہ\\تی ہیں اور تہ\\ارا محتاج ہو" خدا پر بھروسہ رکھنے والوں کو بتایا گیا۔ کہ خدا تہ\\ارا ب\\اپ ہے وہ چ\\ونکہارمحبت ہے۔ بلکہ آاس\\انی ب\\اپ ہے ۔ لہ\\ذا ن\\ا ص\\رف ب\\اپ ہ\\ونے کے لح\\اظ س\\ے پ\\ آاسانی ہونے کے لحاظ سے قادر ہے اور وہ تہ\\ار س\\ب ض\\رورتوں ک\\و جانت\\اہے۔ پس فکر مند ہوکر یہ نہ کہو کہ ہم کیا پ\ئینگے ی\\ا کھ\\ائیں گے ی\\ا کی\\ا پہ\\نیں گے؟ خ\\دا پ\\ر

"۱۷آایت ۶تیتھیس ب\\اب ۱بھروس\\ہ رکھ\\نے والا انس\\ان کس ق\\در خ\\وش قس\\ت ہے۔ دولت پر نہیں۔ بلکہ خدا پر بھروسہ رکھیں جو سب چ\\یزیں اف\\راط س\\ے دیت\\اہے" فل\\پیوں

میرا خدا اپنی دولت کے موافق سیدنا مسیح میں تہار ہر ایک احتیاج۹آایت ۴باب رفع کرے گا۔

آایت ۱۸۔ ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔ متی ب\\اب ۱۲ ۳۵ س\\ے ۲۱: آاپ سے کہا اے مولا اگر میرا بھائی میرا گن\\اہ آاکر " اس وقت حضرت پطرس نے پاس می کرتارہ\\اہے ت\\و میں کت\\نی دفعہ اس\\ے مع\\اف ک\\روں؟ کی\\ا س\\ات بارت\\ک ؟ س\\یدنا عیس\\ الس\یح نے ان س\ے فرمای\ا میں تہیں یہ نہیں کہت\ا کہ س\ات ب\ار بلکہ س\ات دفعہ کےآاس\\ان کی بادش\\اہی " اس بادش\\اہ کی مانن\\د ہے جس نے اپ\\نے س\\تر ب\\ار ت\\ک ۔ پس " نوکروں س\\ے حس\\اب لین\\ا چاہ\\ا ۔ اور جب حس\\اب لی\\نے لگ\\ا ت\\و اس کے س\\امنے ای\\کآاتے تھے۔ مگ\ر چ\ونکہ اس قرض دار حاض\رکیا گی\ا جس پ\ر اس کے دس ہ\زار ت\وڑے کے پاس ادا کرنے کوکچھ نہ تھا اس ل\\ئے اس کے مال\\ک نے حکم دی\اکہ یہ اور اس کی بی\\و بچے اور ج\\وکچھ اس ک\\ا ہے س\\ب بیچ\\ا ج\\ائے اور ق\\رض وص\\ول کرلی\\ا ج\\ائے ۔ پس ن\\وکر نے گ\\ر ک\\ر اس\\ے س\\جدہ کی\\ا اور کہ\\ا اے مال\\ک مجھے مہلتآاپ کا سارا ق\\رض ادا ک\\ردوں گ\\ا ۔ اس ن\\وکر کے مال\\ک نے ت\\رس کھ\\اکر دیجئے ، میں اس\\\ے چھوڑدی\\ا اور اس ک\\\ا ق\\\رض بخش دی\\\ا۔ جب وہ ن\\\وکر ب\\\اہر نکلا ت\\\و اس کے ہمآاتے تھے۔ اس نے اس خ\\دمتوں میں س\\ے ای\\ک اس ک\\وملا جس پ\\ر اس کے س\\و دین\\ار آات\\ا ہے ادا ک\\ردو۔ پس اس کے ہم خ\\دمت کوپکڑکر اس کا گلا گھونٹا اورکہا جو م\\یرا آاپ نے اس کے س\\امنے گ\\ر ک\\ر اس کی منت کی اور کہ\\ا مجھے مہلت دیں ، میں کو ادا کردوں گا ۔ اس نے نہ مانا بلکہ جاکر اسے قید خانہ میں ڈال دیا کہ جب ت\ک ق\\\رض ادا نہ ک\\\ردے قی\\\د رہے ۔ پس اس کے ہم خ\\\دمت یہ ح\\\ال دیکھ ک\\\ر بہتآاکر اپنے مالک کو س\\ب کچھ ج\\و ہ\\وا تھ\\ا س\\نا دی\\ا۔ اس پ\\ر اس کے غگین ہوئے اور مال\\ک نے اس ک\\و پ\\اس بلا ک\\ر اس س\\ے کہ\\ا اے ش\\ریر ن\\وکر ! میں نے وہ س\\ارا ق\\رض تہیں اس ل\\ئے بخش دی\\اکہ تم نے م\\یر ` منت کی تھی ۔ کی\\ا تہیں لازم نہ تھ\\اکہ جیس\\ا میں نے تم پ\\ر رحم کی\\ا تم بھی اپ\\نے ہم خ\\دمت پ\\ر رحم ک\\رتے ؟ اور اس کے مال\\ک نے خف\\ا ہ\\وکر اس ک\\و جلادوں کے ح\\والہ کی\\اکہ جب ت\\ک ت\\ام ق\\رض ادا نہ

کردے قیدرہے ۔ میرا پروردگار بھی تہارے ساتھ اسی طرح کرے گا اگر تم میں س\ے "۔ بائب\ل میں خ\دا کے ب\ارے میں لکھ\\اہر ایک اپنے بھائی کودل سے مع\\اف نہ ک\رے

آاس\\انی ب\\اپ گنہگ\\اروں ہے تجھ س\\ا خ\\دا ک\\ون ہے ج\\و ب\\دکار کومع\\اف ک\\رے۔ کےگن\\اہوں ک\\و مع\\اف ک\رنے والا ہے۔ اس\\ی ل\\ئے وہ یہ چاہت\\اہے۔ کہ جب وہ ہ\\ارے بیش\\ار گن\\اہوں اور قص\\وروں ک\\و مع\\اف کردیت\\اہے ت\\و ہیں چ\\اہیے کہ جس نے ہ\\ارے ب\\رخلاف ک\\وئی قص\\ور ی\\ا گن\\اہ کی\\ا ہے ہم انہیں مع\\اف ک\\ردیں۔ ای\\ک ن\\ونہ کی دع\\ا

:۱۲آایت ۶سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھائی جس میں یہ سکھایا۔ متی باب جس طرح ہم اپنے قرضداروں کو معاف ک\\رتے ہیں۔ ت\\وبھی ہ\\ارے ق\\رض مع\\اف ک\\ر"۔ اس ک\\ا یہ مطلب نہیں کہ ہم خ\\دا ک\\و ن\\ونہ دی\\تے ہیں ۔بلکہ یہ ہے کہ ہم اپ\\نی روزانہآاسانی باپ ہارے قرض بھی معاف ک\\رے گ\\ا۔ دعا میں یہ یاد رکھتے ہیں ۔ کہ ہارا جب ہم اپنے قرضداروں کو معاف کریں۔ سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو معافی کے بارے میں دو حکم دئيے ایک یہ کہ اگر تیرے بھائی کو تجھ سے شکایت ہے یعنیااس س\ے ملاپ ک\ر اور ااس کے پ\اس ج\اکر تونے اس کے دل کو رنجی\دہ کی\ا ہ\\و توت\و

ااسے معاف کر کیونکہ م\\تی ب\\اب ااس نے تیرا قصور کیا ہو تو تو آایت۶دوسرا یہ کہ اگر آادمیوں کے قص\\ور مع\\اف ک\\روگے ت\\و تہ\\ارا۱۵تا ۱۴ میں ہے کہ " اس لئے کہ اگر تم

آادمیوں کے قصور معاف نہ کروگے ت\\و آاسانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا۔ اگر تم آایت ۴تہ\\ارا ب\\اپ بھی تہ\\ارے قص\\ور مع\\اف نہ ک\\رے گ\\ا۔ افس\\یوں " ای\\ک۳۲ب\\اب

دوسرے پر مہربان ہو اور نرم مزاج ہو اور جس طرح خدا نے مس\\یح میں تہ\\ارے قص\\ور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوس\\رے کےقص\ورمعاف ک\رو" کہ میں نے قص\\ور کی\ا ہے وہ معافی مانگے۔ جس کا قصور کیا ہے وہ معافی دے تو اسی ط\\رح س\ے ص\\حیح می\ل ملاپ ق\\ائم ہوس\\کتاہے۔ اورہ رط\\رح کے جگھ\\ڑے ختم ہوس\\کتے ہیں اور دنی\\ا میں امن

چین قائم ہوسکتاہے۔

: اے۴ت\\\ا ۱آایت ۶۔ وال\\\دین اور بچ\\\وں کے ف\\\رائض: افس\\\یوں ب\\\اب ۱۲ فرزندو! پروردگار میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔ اپنے ب\\اپ کی اورم\\\اں کی ع\\\زت ک\\\رو)یہ پہلا حکم ہے جس کے س\\\اتھ وع\\\دہ بھی ہے (۔ ت\\\اکہ تہارا بھلا ہو اور تہار عر زمین پر دراز ہو۔ اور اے اولاد والو! تم اپنے فرزندوں کو غص\\ہ نہ دلاؤ بلکہ پروردگ\\ار کی ط\\رف س\\ے ت\\ربیت اورنص\\یحت دےدے ک\\ر ان کی

" اے فرزن\\دو! ہ\\ر ب\\ات میں اپ\\نے م\\اں ب\\اپ۲۱تا ۲۰آایت ۳" کلسیوں باب پرورش کرو۔ کے فرمانبردار رہو۔ کیونکہ یہ خداوند کو پس\\ندیدہ ہے۔ اے اولاد وال\\و اپ\\نے فرزن\\دوں ک\\و دق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہوج\ائیں"۔ ای\ک وقت وہ تھ\اکہ وال\دین خان\دان کے ڈکٹی\ٹر ہوتے تھے۔ اور بچوں پر ہر طرح کی سختی روارکھی جاتی تھی اسی کو ص\\حیح ت\\ربیت کا نام دیا جاتا تھالیکن اب دوسر ط\\رف یہ ح\\الت ہ\\وتی ج\\اتی ہے کہ بچے نہ ص\\رفآازاد` ک\\ا ن\\ام دی\\ا جات\\ا ہے۔ آازاد بلکہ ب\\اغی ہ\\ونے درجہ ت\\ک پہنچ ج\\اتے ہیں اوراس\\ے مس\\یحی تعلیم دون\\وں کی ذمہ دار بت\\اتی ہے۔ فرزن\\دوں ک\\ا ف\\رض یہ ہے کہ م\\اں ب\\اپاان کی عزت کریں۔ ماں باپ کا فرض یہ ہے کہ بچوں ک\\و تن\\گ نہ کے تابعدار رہیں۔ اان کی پرورش کریں۔ کریں ۔ انہیں غصہ نہ دلائیں بلکہ تربیت اور نصیحت کے ساتھ

آایت ۳۔ شوہر اور بیو کی ذمہ داریاں ۔ کلسیوں باب ۱۴ " اے۱۹ت\\ا ۱۸: بیوی\\و ! جیس\\ا خداون\\د میں مناس\\ب ہے اپ\\نے ش\\وہروں کے ت\\ابع رہ\\و۔ اے ش\\وہرو ! اپ\\نی

اان سے تلخ م\\زاجی نہ ک\\رو" افس\\یوں ب\\اب "۳۳ت\\ا ۲۸آایت ۵بیویوں سے محبت رکھو اور اس\\ی ط\\رح ش\\وہروں ک\\و لازم ہے کہ اپ\\نی بیوی\\وں س\\ے اپ\\نے ب\\دن کی مانن\\د محبتآاپ س\ے محبت کرت\ا ہے ۔ کی\ونکہ رکھیں۔ جو اپنی بیو س\ے محبت کرت\اہے اور اپ\نے کہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشنی نہیں کی بلکہ اس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ سیدنا مسیح ج\\اعت ک\\و۔ اس ل\\ئے کہ ہم ان کے ب\\دن کے عض\\و ہیں۔آادمی باپ سے اور ماں سے جدا ہوکر اپنی بی\\و کے س\\اتھ رہے گ\\ا اور اسی سبب سے

وہ دونوں ایک جسم ہوں گے ۔ یہ بھی\د ت\و ب\ڑا ہے لیکن میں س\یدنا مس\یح اور ج\اعت کی بابت کہتا ہوں ۔ بہر ح\\ال تم میں س\\ے بھی ہ\\ر ای\\ک اپ\\نی بی\\و س\\ے اپ\\نی مانن\\د

" ۔ ڈرتیمحبت کرے اوربیو اس بات ک\\ا خی\\ال رکھے کہ اپ\\نے ش\\وہر س\\ے ڈرتی رہے کس بات سے رہے؟ اس بات سے نہیں کہ شوہر تشدد کرے گ\\ا۔ کی\\ونکہ ش\\و ہ\\ر ک\\و حکم ہے کہ اپنی بیو سے ایسی محبت رکھے جیسے اپنے بدن س\\ے۔ یہ ڈرن\\ا ہے۔ کہااس دل کو رنج پہنچے۔ ج\\و دل اپ\\نی کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے شوہر کے بیو سے محبت کرت\اہے ۔ ش\وہر ک\و یہ حکم دی\اکہ بی\و س\ے اپ\نے ب\دن کی مانن\\دمی س\\جھا جات\\ا تھ\\ا۔ اب محبت رکھے" بیو کا درجہ بلند کردیا۔ بی\\و ک\\و پہلے ادن

" اے بیوی\\و تم بھی اپ\\نے اپ\\نے۷، ۶، ۱آایت ۳پط\\رس ب\\اب ۱برابر کا درجہ دے دیا۔ شوہر کے تابع رہ\\و۔۔۔ چن\\انچہ س\\ارہ ابرہ\\ام کے حکم میں رہ\\تی اوراس\\ے خداون\\د کہ\\تیااس کی بیٹی\\اں ہ\\وئیں۔ اے ش\\وہرو! تم بھی تھی اور کس\\ی کے ڈرانے س\\ے نہ ڈرو ت\\و ااس کی بیویوں کے ساتھ عقل مند` سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف ج\\ان ک\\ر ع\\زت ک\\رو۔ اور ی\\وں س\\جھو کہ ہم دون\\وں زن\\دگی کی نعت کے وارث ہیں ۔ ت\\اکہ تہار دعائیں رک نہ جائیں" اگر شوہر اوربیو کے صحیح تعلقات نہ رہیں۔ تو خ\\دااان کی دع\\ائیں رک ج\\اتی ہیں۔ اان کے تعلق\\ات ص\\حیح نہیں رہ\\تے اور کے س\\اتھ بھی اان کی دع\\ائیں خ\\دا کوقب\\ول نہیں ہ\\وتیں۔ کہ ش\\وہر اوربی\\و میں س\\ے اگ\\ر ک\\وئی یع\\نی بھی زنا کرے تو مسیحی شاد` ٹ\\وٹ ج\\اتی ہے۔ کی\\ونکہ وہ پ\\اکیزہ عہ\\د ج\\و دون\\و کے درمیان ہوتاہے وہ ٹو ٹ گیا۔ مسیحی مذہب میں شوہر اوربیو دونو کو برابر کے حق\\وق

آایت ۵ہیں۔ افس\\یوں " اے بیوی\\و ! اپ\\نے ش\\وہرو کے ت\\ابع رہ\\و" اوراس کی۲۲ب\\اب کی آایت ۲۵آایت ۲۸ میں ہے کہ" اے شوہرو اپنی بیوی\وں س\ے محبت رکھ\\و" اور اس کی

میں ہے " شوہرو کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپ\\نے ب\\دن کی مانن\\د محبت رکھیں۔آاپ سے محبت رکھتاہے۔ شوہر اوربیو کے جو اپنی بیو سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے

آایت۵ایسے نزدیکی تعلقات بیان کئء جیسے کہ ایک روح دو ق\\الب " افس\\یوں ب\\اب " ہر حال تم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیو سے اپنی مانند محبت رکھے۔ اوربی\\و۳۳

اس بات کا خی\ال رکھے کہ اپ\نے ش\وہر س\ے ڈرتی رہے۔ جہ\اں مش\رقی مال\ک میں عورت کو صدیوں تک غلام سجھا گیا۔ وہاں دوسر ط\رف مغ\ربی مال\ک نے ع\ورتآادمی سے بھی متاز سجھنا شروع کردیا۔ لیکن انجیل مق\\دس دون\\وں ک\\ا براب\\ر ک\\ا کو

درجہ بیان کرتی ہے۔ دونو کے ہر صورت میں برابر کے حقوق ہیں۔آایت ۶: ن\\وکر اورمال\\ک کی ذمہ داری\\اں ۔ افس\\یوں ب\\اب ۱۵ "اے۹ی\\ا ۵آایت

نوکرو! جو جسم کے رو سے تہارے مالک ہیں اپنی صاف دلی س\ے ڈرتے اور ک\انپتےآادمی\\وں کوخ\وش ک\رنے ہوئے ان کے ایسے فرمانبردار رہو جیس\ے س\یدنا مس\یح کے ۔ اور وال\\وں کی ط\\رح دکھ\\اوے کے ل\\ئے خ\\دمت نہ ک\\رو بلکہ س\\یدنا مس\\یح کے بن\\دوں کیآادمی\\وں کی نہیں بلکہ طرح دل سے پروردگار کی رضا پور کرو۔ اور اس خدمت کو پروردگار کی جان کر جی سے کرو۔ کیونکہ تم جانتے ہو جو کوئی جیس\\ا اچھ\\ا ک\\امآازاد پروردگ\\ار س\\ے ویس\\ا ہی پ\\ائے گ\\ا۔ اوراے م\\الکو ! تم کرے گا خواہ غلام ہو خواہ بھی دھکیاں چھوڑ کر ان کےساتھ ایسا ہی سلوک کرو کیونکہ تم جانتے ہ\\و کہ ان

آاسان پر ہے اور وہ کس\ی ک\ا ط\\رف دار نہیں " ۔ ن\وکروںکا اور تہارا دونوں کا مالک اا ن کی خدمت جی جان س\\ے ک\\ریں۔ سے کہا کہ وہ مالکوں کے تابعدار ر ہیں۔ اوراان ک\\ا اان سے اچھا س\لوک ک\\رو۔ کہ مالکوں کو کہا گیا ہے ۔ کہ دھکیاں چھوڑ کر آاسان پر ہے وہ کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ج\و جیس\ا ک\ام اورتہارا ! دونوں کا مالک

، " جت\نے ن\وکر ج\وئے کے۲، ۱آایت ۶۔تیتھیس ب\اب ۱کرتاہے۔ ویسا ہی پائے گ\ا۔ نیچے ہیں۔ اپنے مالکوں کو کال عزت کے لائیق جانیں ت\\اکہ خ\\دا ک\\ا ن\\ام اور تعلیماان کو بھائی ہ\\ونے کی وجہ س\\ے حق\\یر بدنام نہ ہو۔ اورجن کے مالک ایاندار ہیں وہ اان کی خدمت کریں کہ فائدہ اٹھ\\انے والے ای\\ان دار نہ جانیں بلکہ اس لئے زیادہ تر

اور عزیز ہیں۔ یہ\\اں مس\یحی م\ذہب نے مال\\ک اور ن\وکر کے تعلق\\ات میں بھ\\ائی ک\\ارشتہ قائم کردیا۔

" عیب ج\\وئی نہ ک\رو کہ۵ت\ا ۱آایت ۷۔ عیب جوئی نہ ک\\رو! م\\تی ب\\اب ۱۶ تہار بھی عیب جوئی نہ کی جائے ۔کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اسی طرح تہ\\ار بھی عیب ج\\وئی کی ج\\ائے گی اور جس پی\انہ س\\ے تم ن\\اپتے ہ\\و اس\\یآانکھ کے تنکے ک\\و س\\ے تہ\\ارے واس\\طے ناپ\\ا ج\\ائے گ\\ا۔ تم کی\\وں اپ\\نے بھ\\ائی کی آانکھ آانکھ کے ش\ہتیر پ\ر غ\ور نہیں ک\رتے؟ اور جب تہ\ار ہی دیکھتے ہ\\و اور اپ\نی آانکھ سے میں شہتیر ہے تو تم اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتے ہو کہ لاؤ تہار آانکھ میں س\\ے ش\\ہتیر نک\\الو پھ\\ر اپ\\نے بھ\\ائی تنکا نک\\ال دوں؟ اے من\\افقو پہلے اپ\\نی

آانکھ میں سے تنکے کو اچھی ط\\رح دیکھ ک\\ر نک\\ال س\\کو گے۔ " یہ کہ\\ا گی\\اکہکی چونکہ سب لوگ تہارے بھائی ہیں اس لئے دوسرے کے عیبوں کا اس طرح سے ذک\\راان کی بے عزتی ہو۔ اگر عیبوں کو اس لئے ظاہر کرتاہے۔ کہ عیب\\وں نہیں کرنا چاہیے کہ

آاپ کو نفرت ہے لیکن بھائی سے پیار ہے تو لکھا ہے۔ متی باب " اگر۱۵آایت ۱۸سے ااس\\ے س\\جھا"۔ اوریہ بھی بتای\\ا تیرا گناہ کرے۔ توجا اور خلوت میں بات چیت ک\\رکے گی\\ا ہے کہ اگ\\ر ت\\و عیب ک\\ا ذک\\ر اس ل\\ئے کرت\\اہے کہ عیب بگ\\اڑ ہے۔ ج\\و بھ\\ائی کیآانکھ کے ش\\ہتیر ک\\و نک\\ال ۔ عیب\\وں اور زن\\دگی میں نہیں ہون\\ا چ\\اہیے ت\\وپہلے اپ\\نی گناہوں کو سب سے پہلے ہیں اپنی زندگیوں سے نکالنا چ\\اہیے تب اپ\\نے بھ\\ائی کے

آانکھ کے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکیں گے۔ ۔ مذہب محض رس\ومات نہیں۔ بلکہ روزانہ علی زن\دگی ہے۔ م\تی ب\اب۱۷

" جو مجھ س\\ے اے م\\ولا اے م\\ولا کہ\\تے ہیں ان میں س\\ے ہ\\ر۲۷سے ۲۴تا ۲۱آایت ۷آاسان کی بادشاہی " میں داخل نہ ہوگ\ا مگ\ر وہی ج\و م\یرے پروردگ\ار کی رض\ا ایک " کو پورا کرتا ہے۔ اس دن بہت\\یرے مجھ س\\ے کہیں گے اے م\ولا ، اے م\\ولا ! کی\\ا ہم

آاپ کے ن\\ام س\\ے ب\\دروحوں ک\\و نہیں نک\\الا اور آاپ کے نام سے نبوت نہیں کی اور نے آاپ کے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے ؟ اس وقت میں ان سے ص\\اف کہہ دوں گا کہ میر کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پ\\اس چلے ج\\اؤ۔پسآادمی کی مانن\د جوک\وئی م\یر یہ ب\اتیں س\نتا اور ان پ\ر ع\ل کرت\\اہے وہ اس عق\\ل من\\د آان\\دھیاں ٹھہ\\رے گ\\ا جس نے چٹ\\ان پ\\ر اپن\\ا گھ\\ر بنای\\ا۔ اور مینہ برس\\ا اور پ\\انی چڑھ\\ا اور چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گ\را کی\\ونکہ اس کی بنی\\اد چٹ\ان پ\\ر ڈالی گ\\ئی تھی۔ اور ج\\و ک\\وئی م\\یر یہ ب\\اتیں س\\نتا ہے اور ان پ\\ر ع\\ل نہیں کرت\\ا وہ اسآادمی کی مانند ٹھہرے گ\\ا جس نے اپن\\ا گھ\\ر ریت پ\\ر بنای\\ا ۔ اور مینہ برس\\ا اور بیوقوف آاندھیاں چلیں اور اس گھ\\ر ک\\و ص\\دمہ پہنچای\\ا اور وہ گ\\ر گی\\ا اور بالک\\ل پانی چڑھا اور

"۔ یہاں سیدنا مسیح نے مثال دے کر یہ ب\\ات ص\\اف ط\\ور پ\\ر بت\\ائی۔ کہ اگ\\ربرباد ہوگیاآادمی کی زن\دگی کی بنی\\اد چٹ\ان ااس م\ذہبی مذہب کا عل زندگی سے تعلق ہے تو ااس کو برباد نہیں کرسکتے۔ لیکن اگ\\ر پر رکھی ہوئی ہے اورہر طرح کے گناہ کےطوفان مذہب کا تعلق محض زبان اور رسومات اور عقائد سے ہی ہے۔ تو زندگی کے مک\\انااس ک\\و برب\\اد ک\\ردینگے۔ آان\\دھیاں کی بنی\\اد ریت پ\\ر رکھی ہ\\وئی ہے اور گن\\اہوں کی ااس علی زندگی کا خود س\\یدنا مسیحی مذہب علی زندگی پر زور دیتاہے اور نونہ

ااس )س\\یدنا مس\\یح( میں۶آایت ۲مسیح ہے۔ یوحنا باب " جو کوئی یہ کہت\\اہے کہ میں ااس\ی ط\رح چلے جس ط\\رح وہ )س\یدنا مس\یح ( چلت\ا ق\ائم ہ\\وں۔ ت\و چ\اہیے کہ یہ بھی می انس\ان نہیں بنات\ا ااس\ے اعل تھا۔ اگر مذہب انسان کی زندگی میں تبدیلی پیدا ک\رکے می نہیں بنات\\ا وہ م\\ذہب انس\\ان کےل\\ئے ااس کے تعلق\\ات دوس\\رے انس\\انوں س\\ے اعل اور محض ایک بوجھ ہے اوربےکار ہے۔ لیکن حقیقی مذہب انسان کی علی زندگی میںااس کے دوس\\رے انس\\انوں کے س\\اتھ می انس\\ان بنات\\اہے ااس\\ے اعل انقلاب پی\\دا کرت\\اہے ۔

می بنادیتاہے۔ یوحنا باب " ۔۱۷آایت ۱۳تعلقات اعل

" اور ص\حابہ ک\رام میں۲۷سے ۲۴آایت ۲۲: بڑا بننے کی شرط: لوقا باب ۱۸آاپ نے ان سے فرمای\\ا کہ یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم میں سے کون بڑا سجھا جاتا ہے ؟ تد مشرکین کے بادشاہ ان پر حکومت چلاتے ہیں اور جو ان پر اختی\\ار رکھ\\تے ہیں خداون\\ نعت کہلاتے ہیں۔ مگر تم ایسے نہ ہونا بلکہ ج\و تم میں ب\ڑا ہے وہ چھ\\وٹے کی مانن\د اور جو مخدوم ہے وہ خادم کی مانند بنے ۔ کیونکہ بڑا کون ہے ؟ وہ جو کھان\\ا کھ\\انے بیٹھا یا وہ جو خ\دمت کرت\\ا ہے ؟ کی\\ا وہ نہیں ج\\و کھان\ا کھ\\انے بیٹھ\\ا ہے ؟ لیکن میں

"۔ سیدنا مسیح نے بڑا بن\\نے کیتہارے درمیا ن مخدوم نہیں بلکہ خادم کی مانند ہوں شرط یہ بت\ائی ج\و س\بھوں کی خ\دمت ک\رے۔ م\ذہبی رہن\ا اپ\نے چیل\وں س\\ے خ\دمت کرواتے ہیں۔ لیکن س\یدنا مس\یح ای\ک ایس\\ے م\ذہبی رہن\ا ہ\\وتے ہیں۔ جنہ\وں نے اپ\نے چیلوں کے پ\اؤں دھ\\وئے اوریہ کہ\\ا۔ لیکن میں تہ\\ارے درمی\\ان خ\دمت ک\\رنے والے کی مانند ہوں اور بتایا جو تم میں بڑا ہونا چاہے۔ وہ چھوٹے کی مانند ہے۔ اور ج\\و س\\ردار ہے

آایت ۹وہ خدمت کرنے والے کی مانند ہے۔ مرقس ب\\اب ااس )س\\یدنا مس\\یح(۳۵ " پھ\\ر اان سے کہ\\ا " اگ\\ر ک\\وئی اول ہون\\ا چ\\اہیے ت\\و س\\ب میں اان بارہ کو بلایا۔ اور نے بیٹھ کر

" تم مجھے اس\تاد اورم\ولا۱۵ت\ا ۱۳آایت ۱۳پچھلا اورسب ک\ا خ\ادم ب\نے" یوحن\\ا ب\\اب کہتے ہو اور خوب کہتےہو کیونکہ میں ہوں۔ پس جب مجھ مولا اور استاد نے تہ\\ارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی ف\\رض ہے کہ ای\\ک دوس\\رے کے پ\اؤں دھوی\ا ک\\رو۔کی\\ونکہ میں نے تم ک\\و ای\\ک ن\\ونہ دکھای\\ا ہے کہ جیس\\ا میں نے تہ\\ارے س\\اتھ کی\\ا ہے تم بھی

" ۔ ان حوالج\\ات س\\ے ص\\اف ظ\\اہر ہوت\\اہے ۔ کہ س\\یدنا مس\\یح نے خ\\دمت کیکیاکرو عظت بی\\ان کی ہے اور ب\\ڑا بن\\نے ک\\ا راز خ\\دمت کرن\\ا ہی بتای\\ا گی\\ا ہے۔ اس\\ی ل\\ئے مسیحی مذہب کے پرچارک جہاں کہیں گئے انہوں نے مناد` کے ساتھ ساتھ مریضوں کی خدمت بھی کی اور انس\انی جہ\الت ک\و دور ک\\رنے کے ل\\ئے تعلیی خ\\دمت بھی

کی۔

"۲۰س\\\\\ے ۱۷، ۱۱، س\\\\\ے ۱۰، ۲آایت ۱۵: پ\\\\\اکیزگی۔ م\\\\\تی ب\\\\\اب ۱۹ تیرے)سیدنا مسیح( کے شاگرد بزرگوں کی روائت\\وں ک\\و کی\\وں ٹ\\ال دی\\تے ہیں کہ کھ\\انےاان سے کہا س\\نو اور کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے؟ ۔۔ اس نے لوگوں کو پاس بلا کر آادمی ک\و ناپ\اک نہیں ک\رتی۔ مگ\ر ج\\و منہ س\\جھو۔ ج\\و چ\\یز منہ میں ج\\اتی ہے۔ وہ آادمی کو ناپاک ک\\رتی ہے۔ کی\\ا یہ نہیں س\جھے کہ ج\و کچھ منہ سے نکلتی ہے وہی میں جاتاہے وہ پیٹ میں پڑتا اور مزبلہ میں پھینکا جاتاہے ۔ مگر جوباتیں منہ سے نکل\\تیابرے خی\\ال، آادمی ک\و ناپ\اک ک\رتی ہیں۔ کی\\ونکہ ہیں وہ دل س\ے نکل\\تی ہیں اور وہی خونریزی\\اں ، زناکاری\\اں، حرامکاری\\اں ، چوری\\اں، جھ\\وٹی گواہی\\اں ، ب\\د گوئی\\اں دل س\\ےآادمی ک\\و ناپ\\اک ک\\رتی ہیں۔ مگ\\ر بغ\\یر ہ\\اتھ دھ\\وئے نکل\تی ہیں۔ یہی ب\اتیں ہیں۔ ج\\و آادمی کو ناپاک نہیں کرتا۔ سیدنا مسیح نے یہ ن\\رالی تعلیم د`۔ کہ ک\\وئی کھانا کھانا آادمی آادمی ناپاک نہیں ہوت\\ا۔ لیکن جوب\\اتیں دل س\\ے نکل\\تی ہیں۔ وہ چیز کھانے سے کو ناپ\\اک ک\\رتی ہیں۔ حقیقی پ\\اکیزگی ک\\ا تعل\\ق روح س\\ے ہے۔ جس\\م س\\ے نہیں۔ اور خوراک کا تعلق جسم کے ساتھ ہے روح کے ساتھ نہیں۔ اچھی خوراک کھانے سے جس\م مض\\بوط ہوجات\\اہے لیکن اچھی خ\وراک س\\ے روح مض\\بوط نہیں ہوج\\اتی ۔ اچھی خوراک نہ کھانے سے جسم کزور ہوجاتاہے لیکن روح ک\\زور نہیں ہ\\وتی ۔ ج\\و ل\\وگ جس\\انی ط\\ورپر مض\\بوط ہیں۔ وہ ض\\رور نہیں کہ روح\\انی ط\\ورپر بھی مض\\بوط ہ\\وں۔ اورجو لوگ جسانی طورپر کزور ہیں۔ وہ ض\\رور نہیں کہ روح\\انی ط\\ورپر بھی ک\\زورااس کا جسم ض\\رور مض\\بوط آادمی دوسروں کا مال لوٹ کر خوب کھاتاہے ۔ ہوں۔ ایک آادمی اپ\\نی خ\\وراک میں س\\ے ہوگا۔ لیکن گناہ کی وجہ سے روح کزور ہوگی۔ دوس\\را ااس ک\\ا ب\\دن ض\\رور ک\\زور ہوگ\\ا۔ لیکن محتاجوں کو دیتاہے۔ توخوراک کم کھانے س\\ے ااس کی روح مض\\بوط ہے۔ وہ جس\\م جس ک\\ا اچھے کام اس بات ک\\ا ثب\\وت ہیں۔ کہ خ\\وراک پ\\ر انحص\\ار ہے۔ وہ مٹ ج\\انے والا ہے لیکن روح ہیش\\ہ ق\\ائم رہ\\تی ہے اور وہ

ابرے خوراک سے متاثر نہیں ہوتی ۔ لہذا خوراک روح کو ناپاک نہیں کرسکتی ۔ لیکن خیال ، حرامکاریاں ، وغیرہ انسان کو ناپاک کرتی ہیں۔

" اس وقت بادش\\اہ اپ\\نے دہ\\نی۳۴آایت ۲۵۔ انس\\ان کی ق\\در: م\\تی ب\\اب ۲۰آاؤ م\یرے پروردگ\ار کے مب\ارک لوگ\و ج\و بادش\اہی بن\ائی ع\الم طرف والوں سے کہے گ\ا سے تہارے لئے تیار کی گئی ہے اسے میراث میں لے ل\\و۔کی\\ونکہ میں بھوک\\ا تھ\\ا ، تم نے مجھے کھاناکھلایا ، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں پردیسی تھ\\ا، تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا ۔ ننگ\ا تھ\\ا تم نے مجھے ک\پڑا پہنای\ا ، بی\ار تھ\ا تم نےآائے ، تب دیانت\\دار ج\\واب میں اس س\\ے میر خبر لی ، قیدمیں تھ\\ا ، تم م\\یرے پ\\اس آاپ کو بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا، پیاسا دیکھ کر پ\\انی کہیں اے مولا ہم نے کب آاپ ک\و پردیس\ی دیکھ ک\ر گھ\ر میں ات\ارا ؟ ی\ا ننگ\ا دیکھ ک\ر ک\پڑا پلای\ا؟ ہم نے کب آائے ؟ بادشاہ جواب میں ان سے آاپ کے پاس آاپ کو بیار دیکھ کر پہنایا؟ ہم کب فرمائے گا میں تم سے سچ کہت\ا ہ\وں جب تم نے م\یرے ان س\ب س\ے چھ\وٹے بھ\\ائیوں میں سے کسی کےساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھر وہ بائیں طرف والوںآاگ میں چلے ج\\اؤ ج\\و س\\ے کہے گ\\ا اے ملعون\\و م\\یرے س\\امنے س\\ے اس ہیش\\ہ کی ابلیس اور اس کے فرشتوں کے ل\\ئے تی\\ار کی گ\\ئی ہے۔ کی\\ونکہ میں بھوک\\ا تھ\\ا، تم نے مجھے کھانہ کھلایا،پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی نہ پلای\\ا۔ پردیس\\ی تھ\\ا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا ، ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا نہ پہنای\ا ، بی\ار اور قی\د میں تھ\\ا ، تمآاپ ک\\و نے میر خبر نہ لی، تب وہ بھی جواب میں کہیں گے اے مولا !ہم نے کب آاپ کی خ\\دمت نہ کی ؟ بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیار یا قید میں دیکھ ک\\ر اس وقت وہ ان سے فرمائے گا یہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے ان س\\ب

خ\داسے چھوٹوں میں س\ے کس\ی کے س\اتھ یہ س\لوک نہ کی\ا ت\و م\یرے س\اتھ نہ کی\ا؟ وسیدنا مسیح کے دل میں ایک چھوٹے سے چھوٹے انسان کی اتنی قدر تھی کہ انہ\\وں

نے یہ فرمایا کہ اگر کس\ی ک\و کس\ی نہ روٹی د` ت\ومجھے د`۔ پیاس\ے ک\و پ\انی پلای\ا تومجھے پلایا۔ بیار کی تیاردار کی تو میر کی ۔ اور اگ\\ر کس\\ی بھ\\وکے ک\\و روٹی نہیں کھلائی ت\\ومجھے نہیں کھلائی ۔ اگرپیاس\\ے ک\\و پ\\انی نہیں پلای\\ا ت\\ومجھے نہیاان کی خ\\دمت ک\\رنے س\\ے یہ م\\راد ہے۔ کہ ںپلای\\ا۔ س\\یدنا مس\\یح مجس\\م خ\\دا ہیں۔ انسانوں کی خدمت کی جائے۔ اسی س\\ے مس\\یحی مش\\نریوں نے تاری\\ک ب\\رہ اعظ\\وں میں جہاں انسان جانوروں کی طرح زن\دگی بس\ر کرت\ا تھ\\ا ج\اکر خ\دمت کی۔ بھوک\\وںآادم خ\\ور لوگ\\وں کے کو روٹی کھلائی، ننگوں ک\\و ک\\پڑا پہنای\\ا۔ بی\\اروں ک\\ا علاج کی\\ا۔ درمیان ایسی ہی خدمتیں کی گئیں۔ کوڑھیوں کے درمی\\ان خ\\دمت ک\\ا ک\\ام کی\\ا گی\\ا۔اان س\\ب س\\ے چھ\\وٹے بھ\\ائیوں میں کیونکہ یہ حکم دیا گیا تھا۔ چ\\ونکہ تم نے م\\یرے

سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اس لئے میرے ہی ساتھ کیا۔ : اے اس\تاد ! ت\وریت۴۰ت\ا ۳۶آایت ۲۲۔ سب سے ب\ڑا حکم: م\تی ب\اب ۲۱

آاپ نے اس س\ے فرمای\\ا کہ خداون\\د اپ\نے خ\دا س\\ے شریف میں کون س\\ا حکم ب\ڑا ہے؟ اپنے سارے دل اور اپنی سار جان او راپنی سار عقل س\\ے محبت رکھ ۔ ب\\ڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی س\ے اپ\نے ب\راب محبت

"۔ م\ذہب ان ہی دوحکوں پر تام ت\وریت اورانبی\اء کے ص\حیفوں ک\ا م\دار ہے ۔رکھ کا نچوڑ دوحکوں میں بیان کردی\\ا۔ خ\\دا س\\ے س\\ارے دل ،س\\ار ج\\ان، س\\ار عق\\ل

آاپس کی محبت ، کے سوا کسی چیز۱۰تا ۸باب ۱۳سے محبت رکھ ، رومیوں باب " میں کسی کے قرض دار نہ ہوکیونکہ جو دوسرے سے محبت کرتا ہے اس نے شریعت پر پورا عل کیا۔کیونکہ یہ باتیں کہ زنا نہ کرو، خون نہ کرو، چور نہ کرو، لالچ نہ ک\\رو، اور ان کے سوا اور جو کوئی حکم ہو ان سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپ\نی مانن\\د محبت ک\\رو ۔محبت اپنےپڑوس\\ی س\ے ب\د` نہیں ک\\رتی ،

۔اب س\وال پی\داہوتاہے کہ ہ\ارا پڑوس\ی ک\وناس واسطے محبت ش\ریعت کی تعی\ل ہے

" مگر اس نے اپنے تئیں راستباز ٹھہ\رانے کی غ\رض س\ے۳۷تا ۲۹آایت ۱۰ہے۔ لوقا باب سیدنا مسیح سے پوچھا۔ پھر میرا پڑوسی کون ہے۔ سیدنا مسیح نے جواب میں کہ\\ا کہاانہ\\وں آادمی یروشلیم سے یریحو کی طرف جارہا تھا۔ کہ ڈاک\\وؤں میں گھ\\ر گی\\ا ایک اا ای\ک اات\ارلئے اور م\ارا بھی اور ادھ\وا چھ\\وڑ ک\ر چلے گ\ئے۔ اتفاق\\ ااس کے ک\\پڑے نے ااسے دیکھ ک\ر ک\ترا ک\ر چلا گی\ا۔ اس\ی ط\رح ای\ک ااسی را ہ سے جارہا تھا۔ اور کاہن ااس\\ے ک\\تر ا ک\\ر چلا گی\\ا۔ لیکن ای\\ک س\\ار س\\فر آای\\ا اور وہ بھی ااس جگہ اور لاو ااس آاک\\ر ااس کے پ\\اس ااس نے ت\\رس کھای\\ا اور ااس\\ے دیکھ ک\\ر آانکلا اور کرتے ک\\رتے وہ\\اں کے زخوں کو تیل اورمے لگاکر باندھا اوراپنے جانور پر سوار ک\رکے س\رائے میں لے گی\\اااس کی خبرگیر کی۔ دوسرے دن دودینار نکال کر بھٹیارے ک\\و دئ\\يے اورکہ\\ا۔ اس اور آاک\\ر تجھے ادا کی خ\\بر گ\\یر کرن\\ا اورج\\و کچھ اس س\\ے زي\\ادہ خ\\رچ ہوگ\\ا میں پھ\\ر ااس ش\\خص ک\\ا ج\\و ڈاک\\وؤں میں گھ\\ر گی\\ا تھ\\ا۔ ت\\یر کرونگ\\ا۔ ان تین\\وں میں س\\ے

ااس پر کیا۔ سیدنا مسیح نے کہ\\ا۔ ااس نےکہا وہ جس نے دانست میں پڑوسی ٹھہرا؟ آادمی کے ااس زخی جا تو بھی ایسا ہی ک\ر۔ تثی\\ل میں س\\یدنا مس\\یح نے یہ بتای\\اکہ ااس پاس سے پہلے ایک مذہبی لیڈر )کاہن( گ\ذرا۔ لیکن خ\ود م\ذہبی لی\ڈر ہ\ونے کے ااس اادھ\\ر س\\ے گ\\ذرا۔ ) می لی\\ڈر )لاو میں انس\\انی ہ\\درد` نہ تھی۔ پھ\\\ر ای\\ک اعلاادھ\ر س\ے ) شخص میں بھی انس\انی ہ\درد` نہ تھی۔ تب اچھ\\وت ج\اتی )س\ارااس زخی ااسی نے انسانیت ک\\و دکھی دیکھ\\ا اورب\\اوجود ہ\\ر ط\\رح کی غ\\ربت گذرا ۔ آادمی کی مدد کی۔ اور سیدنا مسیح نے سوال ک\\رنے والے س\\ے یہ کہ\\ا۔ ج\\اتوبھی ایس\\ا ہی کر۔ اس پڑوسی سے مراد وہ شخص نہیں جو ہ\\ارے گھ\\ر کے ق\\ریب رہت\\ا ہے ی\\ا وہ شخص نہیں جو ہارا ہم مذہب قوم ہے۔ بلکہ ہر وہ ش\خص ج\و ہ\ار م\دد ک\اااس سے ہیں اپنی مانند رکھنا ہے۔ سیدنا مسیح نے محتاج ہے وہ ہارا پڑوسی ہے۔

( اچھوت کی مثال دے کر یہ حکم دیا۔ جاتوبھی ایسا ہی کر۔ اس )سار

: میرا حکم یہ ہےکہ۱۵تا ۱۲آایت ۱۳۔مسیحی ہونے کا نشان۔ یوحنا باب ۲۲ جیسے میں نے تم سے محبت کی تم بھی ایک دوس\\رے س\\ے محبت ک\\رو۔ اس س\\ے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرت\\ا کہ اپ\\نی ج\ان اپ\نے دوس\\توں کے ل\ئے دے دے ۔

یع\\نیج\وکچھ میں تم ک\و حکم دیت\ا ہ\\وں اگ\ر تم اس\ے ک\رو ت\و م\یرے دوس\ت ہ\و۔ مسیحی ہو۔ عام انسانی محبت تو ہر انسان میں پ\ائی ج\\اتی ہے۔ اگ\\ر ایس\ی ہی محبت ک\ا س\\یدنا مس\\یح مط\\البہ ک\\رتے اوریہ کہ\\تے ہیں۔ اس س\\ے س\\ب ل\\وگ ج\انینگے۔ کہ تم م\\یرے ش\\اگرد ہ\\و۔ ت\\و یہ تخص\\یص بلامحفص ہ\\وتی۔ یع\\نی بغ\\یر کس\\ی خ\\اص س\\ے خاص کردینا۔ اگر سب انسانوں میں ایک ہی جیسی محبت ہوتی توپھر ایس\\ی محبت مسیحی ہونے کا کیسے نشان ہوس\\کتی ہے۔ لیکن جہ\\اں محبت رکھ\\نے ک\\ا حکم دی\\ا گیا وہاں یہ بھی بتایا گیا۔ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ای\\ک دوس\\رے سے محبت رکھو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ س\\یدنا مس\\یح کی محبت کیس\\ی محبتمی محبت۔ انس\\\انی محبت ک\\\ا تھی۔ محبت دو قس\\\م کی ہے۔ انس\\\انی محبت اورالہ

می محبت دشنوں کےل\\ئے ج\\ان دین\\ا۔ یوحن\\ا ب\\ابکال دوستوں کےلئے جان دینا۔ الہمی نے ج\\ان لی\\ا کہ م\یرا وہ وقت۵تا ۱آایت ۱۳ : عید فس\\ح س\\ے پہلے جب س\\یدنا عیس\

آاپہنچا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوکر پروردگار کے پاس جاؤں تو اپنے ا ن لوگوں سے جوآاخر تک محبت رکھ\\تے رہے ۔ اور جب ابلیس دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتے تھے آا پ ک\\و پک\\ڑوائے ت\\و شعون کے بیٹے یہودہ اسکریوتی کے دل میں ڈال چکا تھا کہ می نے یہ ج\\ان ک\\ر کہ پروردگ\\ار نے س\\ب ش\\ام ک\\ا کھان\\ا کھ\\اتے وقت ۔ س\\یدنا عیس\\آایا اور پروردگار ہی کے چیزیں میرے ہاتھ میں کرد` ہیں اور میں پروردگار کے پاس سے پاس جاتا ہوں ۔ دسترخوان سے اٹھ کر کپڑے اتارے اور روم\\ال لے ک\ر اپ\\نی ک\\ر میں باندھا ۔اس کے بعد برتن میں پانی ڈال کر صحابہ کرام کے پاؤں دھونے اور ج\\و روم\\ال

ااس\\تاد ہے وہ اپ\\نےکر میں باندھا تھا اس سے پونچھنے شروع کئے "۔ یہ سیدنا مس\\یح

ااس کے تابع\\دار ہیں بلکہ اان شاگردوں کے جو شاگردوں کے پاؤں دھوتاہے۔ ناصرف اان کے بھی جن میں ایک سیدنا مسیح کا انکار ک\\ردے گ\\ا۔ اور دوس\\را س\\یدنا مس\\یحآاکر گرفتار کرائیگا۔ لکھ\\اہے جب س\\یدنا مس\\یح ک\\و پتہ کو تیس روپے کے لالچ میں ہی ل\\گ چک\\ا تھ\\ا۔ کہ ش\\عون ک\\ا بیٹ\\ا یہ\\وداہ اس\\کریوتی مجھے پکڑوائیگ\\ا۔ اس کےااس نے اپ\\نے ااس نے یہوداہ اسکروتی کے پاؤں دھوئے ایسی محبت کا نونہ باوجود شاگرد کو دیا اور کہا۔ جیسے میں تم سے محبت رکھی تم بھی ای\\ک دوس\\رے س\\ے

آایت ۵محبت رکھ\\و۔ رومی\\وں " کس\\ی راس\\تباز کی خ\\اطر بھی مش\\کل س\\ے۸ت\\ا ۷ب\\اب آادمی کےل\\ئے ک\\وئی اپ\نی ج\\ان ت\\ک کوئی اپنی جان دے گ\\ا۔ مگ\ر ش\\ائد کس\\ی نی\\ک دے دینے کی جرات کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے ۔ کہ جب ہم گنہگار ہی تھے مسیح ہار خاطر موا"۔ انس\\انی محبت ک\\ا ک\\ال یہمی محبت ک\ا ک\ال یہ ہے کہ ہم طبیعت کےلئے ج\\ان ت\ک د` د` ج\ائے۔ لیکن الہ ہے کہ وہ گنہگار وں س\\ے بھی محبت رکھت\\اہے۔ پس مس\\یحی ہ\\ونے ک\\ا نش\\ان ایس\\ی محبت ہے۔ جیس\\ے س\\یدنا مس\\یح نے اپ\\نے دش\ن یہ\\وداہ اس\کریوتی س\\ے بھی رکھی۔ مسیحی ہونے کا انجیل مقدس میں اور کوئی ظاہر ا انسان نہیں بتای\\ا گی\\ا۔ ہ\\ر رن\\گ ہ\\ر بولی بولنے والے مسیحی ہیں۔ کوئی خ\\اص پوش\اک مس\یحی ہ\\ونے ک\\ا نش\ان نہیں۔ ہ\\ر طرح کے نام کےلوگ مسیحی ہیں۔ چاہے وہ نام سکھوں کے ن\\اموں جیس\\ے ہ\\وں چ\\اہے وہ نام ہندوؤں جیسے نام ہوں۔ چاہے وہ نام مسلانوں جیسے نام ہوں۔ چ\\اہے وہ انگری\\ز

جاپ\انی اور روس\ی ن\ام ہ\\وں۔ مس\یحی ل\وگ ن\اموں س\ے بھی نہیں پہچ\انے ج\اتے ۔ نہ کوئی مسیحی ہ\ونے کےظ\اہرا نش\انات مق\\رر ک\ئے گ\ئے ہیں۔مس\یحی ہ\\ونے ک\ا ای\ک ہی نشان مقر ر کیا گیا ہے۔ اگرتم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے۔ تو اس س\\ے س\\بآاج\\اتی ہے۔ جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔ مسیحی کے دل میں خ\\دا کی محبت

ااس\ی کے وس\\یلے۵آایت ۵رومیوں باب " کیونکہ روح القدس جو ہم کو بخشا گی\ا ہے۔

سے خدا کی محبت ہارے دلوں میں ڈالی گئی ہے"۔ یہ جومحبت ہارے دلوں میں ڈالی گ\\ئی ہے اس\\ی محبت ک\\ا اظہ\\ار دوس\\روں س\\ے محبت ک\\رنے میں ہوت\\اہے۔ اگ\\ر

مسیحی زندگی میں ایسی محبت کا اظہار نہیں ہوتا تووہ بے نشان زندگی ہے۔ " اورجیس\\ا تم چ\\اہتےہوں کہ ل\\وگ۳۱آایت ۶: س\\نہیلا اص\\ول: لوق\\ا ب\\اب ۲۳

اان کے ساتھ ویس\\ا ہی ک\رو"۔ دنی\\ا ک\\ا ع\\ام اص\\ول یہ ہے۔ تہارے ساتھ کریں۔ تم بھی اان کے س\\اتھ ویس\\ا ہی ک\\رو۔ لیکن کہ جیس\\ا ل\\وگ تہ\\ارے س\\اتھ ک\\رتے ہیں تم بھی سیدنا مسیح نے ایک لاثانی تعلیم د`۔ کہ جیسا تم چاہتے ہ\و کہ ل\\وگ تہ\\ارے س\\اتھاان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر س\\ب ل\\وگ اس اص\\ول ک\\و م\\ان لیں۔ ت\\و کریں تم بھی دنیا سورگ بن جاسکتی ہے۔ اور دنیا میں پولیس کی ض\\رورت ہے نہ ہی ف\\وج کی نہ ہی جی\\ل خ\\انے رہیں۔ نہ ہی مجس\\ٹریٹوں کی ض\\رورت رہے۔ نہ ہی ی\\و۔این ۔او کی ض\\رورت رہے۔ کیونکہ سنہرا اص\ول یہ بتای\ا گی\ا ہے کہ جیس\ے تم چ\\اہتے ہ\\و کہ ل\\وگ تہ\\ارےآا پ کی آاپ نہیں چ\\اہتے کہ ک\\وئی اان کے ساتھ ویس\\ا ہی ک\\رو۔ ساتھ کریں۔ تم بھی آاپ آاپ نہیں چ\اہتے کہ ک\وئی آاپ بھی کس\ی کی بے ع\\زتی نہ ک\\ریں۔ بے عزتی ک\رے آاپ بھی کی چور کرے ،گالی دے یا جھوٹ بولے یا ک\\وئی اور نقص\\ان ک\\رے۔ لہ\\ذا کسی کی چ\ور نہ ک\\ریں گ\الی نہ دیں۔ جھ\\وٹ نہ ب\ولیں نہ کس\\ی ک\ا نقص\\ان ک\\ریں۔آاپ لوگ\\وں س\\ے نی\\ک س\\لوک آاپ س\\ے نی\\ک س\\لوک ک\\ریں ۔ آاپ چاہتے ہیں کہ لوگ اگرآاپ کی آاپ کی عزیں کریں۔ آاپ سے محبت کریں۔ آاپ چاہتےہیں کہ لوگ کریں۔اگر اان کی بھلائی اان کی ع\\زت ک\\ریں آاپ بھی لوگ\\وں س\\ے محبت رکھیں بھلائی ک\\ریں۔ کریں۔ یہ ایک ایسا سنہرا اصول ہے ۔کہ اگر سب لوگ اس پر عل کرنے لگ ج\\ائیںااس کی لاث\\انی شخص\\یت تودنیا کےبے شار دکھ\\وں اوربگ\\اڑوں ک\\ا علاج ہوس\\کتاہے۔

ااس کی لاثانی تعلیم ہے۔ کا پہلا ثبوت

چوتھابابچوتھابابمے ہیں ااس کے لاثانی دعو مے ہیںااس کے لاثانی ہونے کا دوسرا ثبوت ااس کے لاثانی دعو ااس کے لاثانی ہونے کا دوسرا ثبوت

م کئے ؟ م کئے ؟اس نے کیا کیا دعو اس نے کیا کیا دعوم کی\\اکہ میں خ\\دا ہ\\وں ج\\و انس\\انی جس\\م میں۱ ۔ س\\یدنا مس\\یح نے یہ دع\\و

مجسم ہوا ہوں۔ جو مجسم کے منکر ہیں۔ وہ یہ اعتراض ک\\رتے ہیں کہ جنہ\\وں نے اپ\\نےاان کا بے گناہ چال چلن نہ تھ\\ا۔ یہ س\چ ہے ۔ م متعلق مجسم خدایا اوتار ہونے کا دعوم کرے اس کا چال چلن خدا جیسا ہونا چ\\اہیے اور ۔ جو خدا کا مجسم ہونے کا دعو اگر کسی کا چ\ال چلن بے داغ نہیں۔ وہ ت\و خ\دا ک\ا مجس\\م ی\ا اوت\ار نہیں ہوس\\کتا۔م کی\\ا ہے۔ م غلط ہوگا۔ کہ چونکہ یہ شخص جس نے اوت\ار ہ\\ونے ک\ا دع\و لیکن یہ دعو اس کے چ\\\ال چلن میں نقص ہے۔ لہ\\\ذا خ\\\دا ک\\\ا نہ ص\\\رف یہ کہ وہ اوت\\\ار ہی نہیں ہوسکتا بلکہ خدا کا تجس\م ہی ن\امکن ہے۔ یہ س\چ ہے کہ اگ\ر م\دعی ک\ا چ\ال چلن بے داغ چالچن نہیں تو وہ مدعی خدا کا اوت\ار نہیں ۔ لیکن اس س\ے اوت\ار ہ\\ونے کےم کرتے ہیں کہ خدا کا اوت\\ار ناج\\ائز آاتا۔ توجو لوگ یہ دعو امکان کا انکار لازم نہیں اان کی م کی\\ا اان میں یہاں تک تو سچائی ہے۔ کہ جنہوں نے اوتار ہونے کا دع\\و ہے۔ زندگیاں بے نقص نہ تھیں۔ اگرایسے لوگوں کومجسم خدا یا اوت\\ار م\\ان لی\\ا ج\\ائے ت\\ویہ ماننا پڑے گا۔ کہ خدا میں نقائص ہیں تو جس میں نقائص ہوں وہ خ\\دا نہیں ہوس\\کتا۔اان میں بھی س\\چائی ہے۔ کہ بغ\\یر تس\\جم لیکن جو لوگ مجسم خدا کے قائل ہیں کے خدا کا ثبوتی علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ میرے ذہنی خیالات جب ت\ک الف\\اظ ک\اآادمی اس\\تفادہ نہیں کرس\\کتا۔اس\ی ط\\رح جب ت\ک خ\\دا جامہ نہ پہنیں۔ ان سے دوس\را کی بے ح\\\د مرض\\\ی انس\\انی ب\\ولی ک\\ا ج\\\امہ نہ پہ\\\نے اس س\\ے اس\\\تفادہ نہیں کی\\\ا جاس\\کتا ۔ خ\\دا کی بے ح\\د مرض\\ی س\\ے اس\\تفادہ کےل\\ئے انس\\انی ب\\ولی ک\\ا وس\\یلہ

ضرور ہے۔یعنی جب تک خدا اپ\\نی مرض\\ی ک\\ا اظہ\\ار انس\\انی ب\\ولی میں نہ ک\\رےااس س\ے فائ\دہ حاص\ل نہیں کرس\کتا۔ خ\دا کے بے علم اوربے ح\د مرض\ی اور انسان لامحدود انسان کے درمیان انسانی بولی ایک وسیلہ ہے۔ دنیا میں جتنی م\\ذہبی الہ\\امیاان کے متعل\\ق ان کے معتق\\دین ک\\ا یہ عقی\\دہ اورای\\ان ہے۔ کہ وہ خ\\دا کت\\ابیں ہیں۔ ااس میں خ\\دا کی مرض\\ی کی کتابیں ہیں۔ اگ\\ر وہ خ\دا کی کت\\ابی ہیں۔ ت\واس ل\\ئے کہ اورعلم کو بیان کی\\ا گی\\ا ہے۔ اور وہ کت\\ابیں انس\\انی ب\\ولی اورمح\\اورے میں لکھی گ\\ئی ہیں۔ کاغذ سے بنی اورسیاہی سے لکھی گئی ہیں۔تو اگر کس\\ی کت\\اب ک\\و اس\\لئے کہااس\\ے ااس میں خدا کی بے مرضی محدود انس\انی ب\ولی میں بی\\ان ک\رنے کی وجہ س\ے خدا کی کتاب کہا جاتاہے۔تو اگر اشرف الخلوقات انسان میں بے حد خ\\دا مجس\\مااس میں کیا نقص ہے۔ اگر خدا کی بیحد مرضی کا تجسم ایک کاغذ اورسیاہی ہو تو ااس کا تجسم کیونکر سے مرتب کتاب میں جائز ہے تو اشرف الخلوقات انسان میں

نامکن ہے۔ انسان میں طبعی خواہش خدا کےدیدار اورملاپ کی ہے۔تس مجاز میں آالبا تت منتظر نظر کبھی اے حقیق

کہ ہزاروں سجدےتڑپ رہے ہیں میر جبین نیاز میں بغ\\یر تجس\\م کے دی\\دار ن\\امکن ہے۔بغ\\یر تجس\\م کے مح\\دود انس\\ان س\\ےم کی\\ا گی\\ا ہے۔ کہ لامحدود خ\\دا ک\\ا ملاپ ن\\امکن ہے۔ مس\\یحی م\\ذہب میں یہ دع\\وااس ک\ا کلام م کرے۔ مجسم خدا کی ضرورت ہے لیکن جو مجسم خدا ہونے کا دعوم کی\\ا اوریہ اور کام خدا جیسا ہون\ا چ\\اہیے۔ س\\یدنا مس\\یح نے مجس\م خ\\دا ہ\\ونے ک\\ادعو کہا ۔ میرا کلام میرا نہیں بلکہ میرے بھیجنے والا کا ہے۔ باپ مجھ میں رہ ک\\ر ک\\امم کے ثبوت میں سیدنا مس\\یح نے کرتاہے ۔ میرے کاموں سے میرا یقین کرو۔ اپنے دعو

آادم۲۹ت\\ا ۲۸آایت ۸اپنی پیش کی ۔ یوحنا باب تن " پس یس\\وع نے کہ\\ا کہ جب تم اباونچے پ\ر چڑھ\\ا ؤ گے ت\\و ج\\انو گے کہ میں وہی ہ\\وں اور اپ\\نی ط\\رف س\ے کچھ کو ا

ااس\\ی ط\\رح یہ ب\\اتیں کہت\\اہوں ۔ نہیں کرت\\ا بلکہ جس ط\\رح ب\\اپ نے مجھے س\\کھایا اورجس نے مجھے بھیج\\ا وہ م\\یرے س\\اتھ ہے مجھے اکیلا نہیں چھ\\وڑا۔ کی\\ونکہ میں

آاتے ہیں۔ یوحن\\ا ااس\ے پس\ند آایت ۷ہیشہ وہی کا م کرت\\اہوں جو " یس\وع۱۷ت\ا ۱۶ب\اب اان سے کہا ۔ کہ م\\یر تعلیم م\\یر نہیں بلکہ م\\یرے بھیج\\نے والے کی نے جواب میں ااس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس تعلیم کی ب\\ابت ج\\ان ج\\ائے ہے۔ اگر کوئی

ت\\ا۱آایت ۱گا۔ کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہت\\اہوں۔ یوحن\\ا ب\\اب " ابتدا میں کلام تھااور کلام خدا کے ساتھ تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھ\\ا۔۳

ااس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں۔اورجو کچھ ہوا اس میں سے کوئی چیز بھی سب چیزیں آادمی\\وں ک\\ا ن\\ور تھی۔ ااس میں زندگی تھی اور وہ زن\\دگی ااس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی ۔ م کیا اوراپنے کلام اور کام س\\ے ثب\\وت سیدنا مسیح نے مجسم خدا ہونے کا لاثانی دعو

آایت۱پیش کی\\ا۔ ہم س\یدنا مس\یح ک\واس ل\\ئے مجس\م خ\دا کہ\\تے ہیں کلس\یوں ب\اب " وہ اندیکھے خدا کی صورت اور تام مخلوقات سے پہلے موجود ہے۔۱۵

" کی\\\ونکہ ال\\\وہیت کی س\\\ار مع\\\ور اس\\\ی میں۹آایت ۲کلس\\\یوں ب\\\اب " اس میں کلام نہیں کہ۱۶آایت ۳تیتھیس ب\\\اب ۱مجس\\\م ہ\\\وکر س\\\کونت ک\\\رتی ہے۔

دیندار کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہوا اور روح میں راستباز ٹھہ\\را اورااس پر ایان ااس کی مناد` ہوئی اور دنیا میں فرشتوں کو دکھائی دیا اور غیر قوموں میں

آایت ۱لائے اورجلال میں اوپ\ر اٹھای\\ا گی\\ا۔ ع\\برانیوں ب\اب ااس کے جلال ک\ا پرت\و۳ " وہ اوراس کی ذات کا نقش ہوکر سب چیزوں کو اپ\\نی ق\\درت کے کلام س\\ے س\\نبھالتاہے ۔

وہ گناہوں کو دھوکر عالم بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ااس س\\ے کہ\\ا" اے فلپس میں ات\نی م\\دت۹آایت ۱۴یوحنا باب ۔ یسوع نے

ااس نے ب\\اپ سے تہارے پاس ہوں کیا ت\\ومجھے نہیں جانت\\ا۔ جس نے مجھے دیکھ\\ا کود یکھا" باپ خدا کی وہ حیثیت ہے جسے انسان دیکھ نہیں س\\کتا۔ وہ خ\\دا کی

لامحدود صورت ہے۔ لیکن سیدنا مسیح خدا کی ظہور ص\\ورت ہے۔ لہ\\ذا خ\\دا ک\ا "۱۸آایت ۱ثبوتی علم صرف سیدنا مسیح کے وسیلے سے حاص\\ل ہوت\\اہے ۔ یوحن\ا ب\اب

ااس\ی نے خدا کو کس\ی نے کبھی نہیں دیکھ\ا اکلوت\ا بیٹ\ا ج\و ب\اپ کی گ\ود میں ہے ظاہر کیا"۔ اکلوتے بیٹے سے مراد سیدنا مس\\یح ہے۔ خ\\دا چ\\ونکہ غ\\یر م\\رئی ہے۔ لہ\\ذاااس\\ی خ\\دا کی ظہ\\ور ص\\ورت ہے۔ لہ\\ذا وہی ااس کا دیدار نامکن ہے۔ سیدنا مس\\یح

" کی\\ا ت\\و یقین نہیں کرت\\اکہ میں ب\\اپ میں۱۰آایت ۱۴خدا کا مجسم ہے یوحنا باب ہوں اورباپ مجھ میں ہے۔ یہ باتیں جو میں تجھ سے کہتاہوں۔ اپنی طرف س\\ے نہیں کہتا۔ لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے"۔ جس طرح روح کا اظہار جس\\مااس\\ی ط\\رح خ\\دا ک\\ا اظہ\\ار س\\یدنا مس\\یح کے جس\\م س\\ے کے وس\\یلے س\\ے ہوت\\اہے ۔

" م\یرا یقین ک\رو" کہ میں ب\اپ میں ہ\وں اورب\اپ مجھ۱۱آایت ۱۴ہوت\اہے ۔ یوحن\ا ب\اب میں ہے۔ نہیں تو میرے ک\اموں ہی کے س\بب م\یرا یقین ک\رو "۔ س\یدنا مس\یح نے خ\دا

م کے ساتھ اپ\\نی زن\\دگی س\\ے بھی ثب\\وت دی\\ا۔ یوحن\\ا ب\\اب " تم۴۶آایت ۸ہونے کا دعو میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتاہے؟ اگر میں بولت\\اہوں ت\\و م\یرا یقین کی\\وں نہیں ک\رتے ؟ باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتاہے میرے کاموں کے سبب سے یقین ک\\رو کہ ب\\اپ مجھ میں اور میں باپ میں ہ\\وں" س\\یدنا مس\یح نے اس\\ی ل\\ئے یہ کہ\\ا۔ جس نے مجھے دیکھا باپ کو دیکھا میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پ\\اس نہیں ج\\ا س\\کتے۔ جیس\\ے مذہبی کتاب پڑھنے کے بغیر خدا کی بے حد مرض\\ی واقفیت حاص\\ل نہیں کرس\\کتے۔ سیدنا مسیح میں تینوں ضروریات پور ہوتی ہیں۔ خدا کا علم حاص\\ل کلام ہے" م\\یرےآانکھ کے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں جاسکتے۔ خدا کا دیدار حاصل ہوت\\اہے۔ وسیلے بغیر دیکھ نہیں سکتے ۔ اسی طرح سیدنا مسیح کے بغیر خدا کو دیکھا نہیںااس نے اس ک\\و دیکھ\\ا"خ\\دا س\\ے ملاپ اس\\ی کے جاس\\کتا" جس نے مجھے دیکھ\\ا

" باپ مجھ میں اور میں باپ میں اورتم مجھ میں۲۱: ۱۷وسیلے سے ہوتا ہے ۔ یوحنا ہو"۔

م۲ م منج\\ئی ع\\الین ہ\\ونے ک\\ا لاث\\انی دع\\و ۔ س\\یدنا مس\\یح نے دوس\\را دع\\و " تندرستوں کو طبیب درکار نہیں۔ بلکہ بیار ک\\و ۔۔۔۔کی\\ونکہ۱۲آایت ۹کیا۔ متی باب

آای\\ا ہ\\وں۔ آایت ۱میں راس\\تباز وں ک\\و نہیں۔ بلکہ گنہگ\\اروں ک\\وبلانے " یہ5 تیتھیس بات سچ ہے کہ اورہ\\ر ط\\رح س\\ے قب\\ول ک\رنے کےلائ\\ق ہے س\\یدنا مس\\یح گنہگ\اروں ک\\وم کیا ہے۔ آایا" خدا سیدنا مسیح نے منجئی ہونے کا دعو نجات دینےکےلئے دنیا میں ضرورت منجئی ماننے کےلئے ضرورت نجات ی\\ا ض\\رورت مک\\تی مانن\\ا ض\\رور ہے۔ حکیم کی ض\\رورت ک\\و م\\اننے س\\ے پہلے علاج کی ض\\رورت مانن\\ا ض\\رور ہے۔ علاج کی ضرورت کو ماننے سے پیشتر یہ ماننا ضرور ہے۔ کہ ک\\وئی بی\\ار ہے۔ اس\\ی ط\\رحتت منجئی کےلئے ضرورت نجات مانن\\ا ض\رور اور ض\رورت نج\\ات م\اننے کے ضرور لئے بندھن ماننا ضرور ہوگا۔ اگر مریض ہی نہیں ۔ تو ضرورت علاج ہی نہیں۔ اگ\\رتت علاج نہیں۔ ت\\و ض\\رورت حکم بھی نہیں۔ بعض ل\\وگ ض\\رورت نج\\ات ہی ض\\رور نہیں م\انتے ۔ جیس\ا جنم ک\ا ان\\دھا بین\\ا کی ض\رورت نہ س\\جھے ۔کی\\ونکہ بین\\ائی کیااس\\ے آادمی ض\\رورت علم ک\ا انک\ار ک\\رے۔ کی\\ونکہ حقیقت سے ناواقف ہے یا ان پ\ڑھ اا گناہ کرنا پسند کرتاہے ۔ وہ گناہ آادمی طبع صحیح امتیاز حاصل نہیں۔ اسی طرح جو کا قید` ہے۔ لہذا وہ قدرت نجات کو نہیں مانت\\ا۔ اس\\ی ط\\رح جس غلام میں غلام\\انہ

آازاد` کو نہیں سجھتا۔ یوحنا باب تت " لیکن جو اپنے۱۱آایت ۲ذہینیت ہو۔ وہ ضرور بھ\\ائی س\\ے ع\\داوت رکھت\\اہے۔ وہ ت\\اریکی میں ہے۔ اورت\\اریکی میں ہی چلت\\اہے یہ نہیںآانکھیں ان\دھی ک\رد` ہیں"۔ ع\ام جانتا کہ کہاں جات\اہے کی\ونکہ ت\اریکی نے اجس کی آازاد` آازاد` کے خ\واہش من\د ہیں۔ ہ\\ر ط\رح کی بی\اریوں س\ے طورپر لوگ ہر طرح کی آازاد` چ\\اہتے ہیں۔ لیکن گن\\اہ جس کےلئے کوشش کررہے ہیں۔ غیروں کی غلامی سے

آازاد ااس سے لاپروہ ہونے کی وجہ س\\ے گن\\اہ س\\ے کے پنجے کے طورپر یہ غلامیاں ہیں۔ ` حاص\\ل کرن\\ا نہیں چ\\اہتے دراص\\ل دنی\\ا کے س\\ارے بگ\\اڑ ک\\ا س\\بب گن\\اہ ہے۔ گن\\اہ

عالگیر ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے۔ دنیا کے تام مذاہب ضرورت نجات کے قائل ہیں۔ ضرورت نجات کو مانن\\ا ہی اس بات کا ثبوت ہے ۔ کہ گرفتار یا بندھن ضرور ہے۔ اب یہ بندھن چاہے گن\\اہآال\\ودہ طبعیت کے جب س\\ے ہ\\وبہر ص\\ورت یہ مانن\\ا کے نتیجے کے ط\\ورپر ہ\\و۔ ی\ا گن\\اہ پڑتاہے۔ کہ بندھن ضرور ہے۔ نج\ات س\ے م\راد گن\\اہ اور گن\اہ کے پنجے س\ے چھٹک\ارا ہے۔ کامل تندرستی بی\ار اوربی\ار کے ن\تیجے س\ے چھٹک\ارا ہے۔ جب ض\روریات نجات ہہ گیر تو گناہ بھی یہ گیر ماننا پڑیگا۔ جب سب مذاہب ضرورت ہے نج\\ات

کے قائل ہیں۔ تو گناہ کی ہہ گیر بھی ثابت ہے۔ ۔ عقل سے یہ ثابت ہے کہ گناہ ہہ گ\\یر ہے۔ اورانس\\ان ک\\ا گن\\اہ کی ط\\رف۲

ابرا س\جھتا ہے۔ اوریہ جانت\ا ہے میلان طبعی ہے۔ اسی لئے باوجود یکہ انسان گناہ کو ااسے برا قرار دیتے ہیں۔ کہ گناہ ب باعث بے عزتی ہے، گورننٹ ، مذہب سوسائٹی ااس ک\\ا میلان لیکن پھ\\ر بھی ب\\اوجود س\\ارے علم کے انس\\ان گن\\اہ کرت\\اہے۔ اس ل\\ئے

گناہ کی طرف طبعی ہے۔ اورطبیعت ہیہ گیر ہوتی ہے۔ اان سب میں گناہ پایا۳ ۔ جتنے لوگوں کی بابت ہم نے پڑھا ۔ سنا، دیکھا

آادمی ہے جس جاتاہے ۔ لہذا مشاہدہ سے یہ ثابت ہے کہ گناہ ہہ گیر ہے۔ ک\\ون ایس\\ا اا ایک بھی گناہ نہیں کیا۔ اا خیل اا ۔ فعل نے قول

سول تو ہم جان بوجھ کرگناہ ک\\رتے۴ ۔ تجربہ ، ہارا شخصی تجربہ یہ ہے کہ انہیں کرن\\ا۔ ت\\وبھی ہم س\\ے گن\\اہ ہوجات\\اہے۔ہیں۔ لیکن اگ\\ر یہ بھی ارادہ ک\\ریں۔ کہ وہ

" کیونکہ میں جانتا ہ\\وں کہ مجھ میں یع\\نی م\\یرے جس\\م۲۱سے ۱۸آایت ۷رومیوں باب میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ

س\ے بن نہیں پ\ڑتے۔چن\انچہ جس نیکی ک\ا ارادہ کرت\ا ہ\\و ں وہ ت\و نہیں کرت\ا مگ\ر جس بد` کا ارادہ نہیں کرتا اسے کرلیت\ا ہ\وں ۔پس اگ\ر میں وہ کرت\ا ہ\وں جس ک\ا ارادہ نہیں کرتا تو اس کا کرنے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے ج\\و مجھ میں بس\\ا ہ\\وا ہے۔غ\\رض میںآاموج\ود ہ\وتی ایسی شریعت پاتا ہوں کہ جب نیکی کاارادہ کرتا ہوں تو ب\د` م\یرے پ\اس

"۔ہے بائب\\ل مق\\دس اس ب\\ات کی تص\\دیق ک\\رتی ہے کہ گن\\اہ ہہ گ\\یر ہے" ہ\\ار

سار راستباز گند` دھجیوں کی مانند ہے" زمین پر کوئی راستباز نہیں۔ ج\\ونیکی ہینیکی اور خطا نہ کرے"۔

آادمی نہیں ج\\و گن\اہ نہ کرت\ا۴۶آایت ۸۔سلاطین باب ۱ " کی\\ونکہ ایس\\ا ک\وئی ہو"۔

انسان کا دل اور عقل دونو پانی ہوگئے ہیں ۔ مذہب کے م\اننے والے ۔ اگ\\رچہ خدا کے قائل ہیں۔ اور یہ جانتے ہیں کہ انسانوں کو ایک دوسرے سے بلاامتیاز محبت کرنی چاہیے ۔ لیکن مذہب کے نام میں ایک دوسرے کو قت\\ل کی\\ا جات\\اہے۔ جس ب\\اتااس کے ب\رخلاف ک\رتے ہیں)ب(سیاس\ت کو عقی\دے کےطورپردرس\ت م\انتے ہیں ع\ل دان اگ\\رچہ اپ\\نے فلس\\فہ میں یہ م\\انتے ہیں ۔ کہ بہ\\ترین سیاس\\ت وہ ہے۔ جس میں ع\\وام کی بھلائی ہو لیکن خود غرضیوں میں گرفتار ہوکر سیاس\\ت دان ع\\وام کےل\\ئے دکھ ک\ا ب\\اعث بن ج\\اتے ہیں۔س\\ائنس دان ج\\و بہ\\ترین قس\\م کےدم\\اغ رکھ\\تے ہیں۔ جنہ\\وں نےاان کے دل انسانوں کے فائدے کےلئے بےش\ار چ\یزیں ایج\اد کی ہیں۔ لیکن گن\اہ نے ااس وقت ت\\و انس\\ان ودم\\اغ پ\\ر ایس\\ا اث\\ر ڈال دی\\ا ہے۔ کہ جب دنی\\ا غ\\یر مہ\\ذب تھی۔ آاج س\\ائنس دان\\وں نے دوس\\رے انس\\ان ک\\و لاٹھی اورپتھ\\ر س\\ے ہی مارس\\کتا تھ\\ا۔ لیکن

وںڑایسے مہلک ہتھیار تیار کرلئے ہیں ۔ کہ اس مہذب زمانہ میں ای\\ک ہی انس\\ان ک\\رو

انسانوں کو چند ہی لحوں میں ختم کرسکتا۔ گناہ طبعیت میں غالب ہوتاہے جس کااظہار تین طریقوں سے ہوتاہے۔

ارے۱ آال\\ودہ ط\\بیعت ک\\ا اظہ\\ار اپ\نے ب\ ۔اعال سے ۔ یع\\نی انس\\ان اپ\\نی گن\\اہ کاموں میں کرتاہے۔ سب مذاہب اس بات پرزوردیتے ہیں۔ کہ انسان کے کام نی\\ک ہ\\ونے چاہئیں۔ لیکن مسیحی م\\دہب اس ب\\ات پ\\زور دیت\\اہےکہ ک\\اموں کاچش\\ہ ج\\ودل ہے۔ وہآازاد نہیں۔ بلکہ اپ\نی ط\\بیعت میں پاک ہونا چ\اہیے ۔ کی\\ونکہ انس\ان اپ\نے ک\اموں میں آازاد ہے۔کام کرنے کےلئے بیرونی حالات ک\ا مواف\\ق ہون\ا م\زدور ہے۔ ای\ک ش\خص میں چور کی طبیعت ہے لیکن چور کرنے کےلئے حالات موافق ہونے چ\\اہیے۔ جب ت\\ک حالات ایسے نہ ہ\\وں کہ وہ چ\ور نہیں کرس\کتا۔ اور چ\ور کے بع\\د چ\ور ک\رنے ک\ا ثبوت ہوجائے تو وہ چور ہے۔لیکن خدا کی نظر میں وہ چور کا فع\\ل ک\\رنے س\\ے پہلے بھی چور ہے۔ اسی ل\\ئے گن\\اہ دل میں غ\\الب ہے۔جس ک\\ا اظہ\\ار اع\\ال میں ہوت\\اہے ۔

اگر دل میں چور کا پاپ نہیں تو وہ چور کر نہیں سکتا۔ زبان سے ۔"کامل شخص وہ ہے ۔ ج\و ب\اتوں میں خط\\ا نہ ک\رے" اگ\ر کس\ی آادمی کے اعال اچھے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن زبان سے گالی دیتاہے ۔چغلی کرت\\اہے توبھی وہ خدا کی نظ\ر میں پ\اپی ہے۔ کی\ونکہ یہ اس ب\ات ک\ا ثب\\وت ہے کہ اس ک\ا دل

پاپی ہے۔ جیسے کا اظہار وہ لفظوں میں کرتاہے۔ابرے خی\ال انس\ان کس\ی کے ذہ\\نی خی\الات ک\و نہیں ج\ان۳ ۔خیال سے :

ابرے ہیں۔ آادمی ک\\\و جس کے دل کے خی\\\ال س\\\کتا اس ل\\\ئے مکن ہے کہ وہ ایس\\\ے ااس\\ے ک\\وئی آادمی سجھ لے۔ لیکن خدا جو دل کے خیالات کو جانتاہے ایک اچھا ااس کی نظ\\\ر میں وہ ش\\\خص پ\\\اپی ہے۔ جس کی آادمی دھ\\\وکہ نہیں دے س\\\کتا۔

آایا ہے۔ یعقوب " کی\\ونکہ جس نے۱۱تا ۱۰باب ۲طبیعت میں پا ہے بائبل مقدس میں شریعت پر عل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی وہ سب باتوں میں قصور وار ٹھہرا۔)

( اس لئے کہ جس نے یہ فرمایا کہ زنا نہ کر اسی نے یہ بھی فرمایا کہ خون نہ کر ،۱۱ پس اگر تم نے زنا ت\و نہ کی\ا مگ\ر خ\ون کی\\ا ت\\و بھی تم ش\ریعت ک\ا ع\\دول ک\\رنے والے

"۔ پس کون سا ایسا انسان ہے جس نے ایک بھی گن\\اہ نہیں کی\\ا۔ پس ت\\امٹھہرے میں گرفت\ار ہیں جس کی تص\دیق انجی\\ل مق\\دس ک\رتی ہے۔ رومی\\وں ب\ابانسان گن\\اہ

: چنانچہ لکھا ہے کہ ۱۸تا ۱۰آایت ۳کوئی سچا نہیں، ایک بھی نہیں

کوئی سجھ دار نہیں ۔کوئی پروردگار کا طالب نہیں۔

سب گراہ ہیں سب کے سب نکے بن گئے ۔کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ایک بھی نہیں۔

ان کاگلا کھلی ہوئی قبر ہے۔انہوں نے اپنی زبانوں سے فریب دیا۔

ان کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ان کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ان کے قدم خون بہانے کے لئے تیزروہیں۔

ان کی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے۔اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے ۔

آانکھوں میں پروردگار کا خ\\وف نہی ں"۔ پس جب انس\\ان کی ایس\\یا ن کی حالت ہے ۔ تواس سے چھٹکارہ کیونکر مکن ہے؟ چھٹک\ارے کے متعل\ق ک\\ئی ای\\ک

فلسفے بیان کئے گئے ہیں۔ ۔ نیک کام کرنے سے نج\\ات مل\تی ہے۔ لہ\\ذا نی\\ک ک\ام ک\رنے پ\ر زور دی\ا۱

ابرے جات\\اہے ۔ لیکن نی\\ک اع\\ال اپ\\نی ذات میں ض\\رور ہیں۔ نج\\ات ک\\ا مطلب ہی

ابر طبیعت سے چھٹک\\ارا ہے۔ لیکن س\\وال یہ ہے۔ کہ جونی\\ک ک\\ام کس\\ی کاموں میں اا ااس نے فرض پورا کیا۔ لیکن اگرای\\ک ہی عل آادمی نے کئے وہ کرنے تو ضرور تھے۔ آادمی بی\ار نہ ہ\\و۔ ااس ک\ا کی\\ا علاج ہے۔ یہ ض\رور ہے کہ اا گناہ ہوگیا۔ تو اا، خیال ، قولآادمی مل\\ک کے ااس ک\\ا علاج ض\\رور ہے۔ اگرای\\ک لیکن اگر بی\\ار ہ\\و ج\\ائے ت\\وپھر سارے قانون پر عل کرے لیکن قانون ایک دفعہ ت\وڑدے ت\و وہ مجس\ٹریٹ کے س\امنےاان اع\\ال یہ صفائی نہیں پیش کرسکتا کہ میں نے سارے قانون پر عل کی\\ا ہے۔ لہ\\ذا ارم نظر انداز کردی\\ا ج\\ائے۔ مجس\\ٹریٹ یہ ج\\واب کی وجہ سے میرا یہ چور کرنے کا ج دے گا۔ باقی قانون کو ماننا تو تہارے لئے ضرور تھا۔ لیکن جواب طل\\بی توتہ\\ار

اس ب\\ات کےل\\ئے ہے کہ تم نے ق\\انون ک\\و ای\\ک دفعہ ت\\وڑاہے۔ جس کی س\\زا تہیں برداشت کرنی ہوگی ۔ اسی ط\\رح نی\\ک ک\\ام ک\\رنے اپ\\نی ذات میں ض\\رور ہے۔ لیکن نی\\ک ک\\اموں س\\ے نج\\ات نہیں مل\\تی۔ خ\\دا کی نظ\\ر میں نی\\ک ک\\ام وہ ہیں جونی\\ک طبیعت سے ہوتے ہیں۔ اورچونکہ دنیا میں کوئی انس\\ان ایس\\ا نہیں۔ ج\\ونیکی ہی نیکی ک\رے اورب\د` نہ ک\رے۔ جس کی ط\\بیعت ایس\ی پ\اک ہ\و۔ جیس\ے خ\دا کی ط\بیعت

آادمی نیک کاموں سے نجات نہیں پاسکتا۔ پاک ہے ۔لہذا کوئی ۔ علم ۔ یاشریعت سے نجات مل سکتی ہے۔ بعض لوگ\\وں ک\\ا فلس\\فہ یہ ہے۲

می روشنی مل جائے تو کیا وہ نج\\ات پاس\کتا ہے لیکن نج\\ات آادمی کو علم یا الہ کہ اگر ک\ا علم اورب\ات ہے۔ نج\ات ک\ا حص\ول اورب\ات ہے۔ گن\اہ ک\ا علم اور ب\ات ہے۔ لیکن گناہ سے چھٹکارہ اورب\ات ہے۔علاج کے علم اورعلاج کے ک\رنے میں بڑاف\\رق ہے۔ مث\الآادمی ملیریا کا مریض ہے۔ اگ\\ر وہ ملیری\\ا کی م\\رض کے متعل\\ق یہ ج\\ان کے طورپر ایک ااس\\ے بی\\ار جائے۔ کہ یہ جراثیم سے ہوتاہے ۔ تو اس ک\\ا بی\\ار کے متعل\\ق یہ علم

ااس\\ے یہ علم ہوج\\ائے کہ یہ ج\\راثیم ک\\ونین س\\ے س\\ے نہیں چھڑاس\\کتا۔ اس\\ی ط\\رح اگ\\ر مرجاتے ہیں۔ لیکن خود کو نین استعال نہ ک\\رے ت\\و تندرس\\ت نہیں ہوس\\کتا۔ علاج

ااسے تندرست نہیں کرسکتا۔اسے کونین استعال کرنے کی ض\\رورت ہے۔ اس\\ی کا علم ط\\رح محض گن\\اہ ک\\ا علم ی\\ا گن\\اہ کے علاج ک\\ا علم انس\\ان ک\\و گن\\اہ س\\ے چھ\\ڑانہیں سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے۔ گناہ ہوتا ہی گیان یا شریعت کے بعد ہے۔ اگر کسی کوااس ش\خص کےل\\ئے گن\\اہ ہیں۔ یہی علم نہیں کہ فلاں کام کرنا گناہ ہے۔ تو وہ کام ااس کے ل\\ئے معی\\وب فع\\ل نہیں۔ اس\\ی معصوم بچہ اگر کس\\ی کی داڑھی پک\ڑلے ت\\ویہ

آای\\ا ہے۔ رومی\\وں ب\\اب : جہ\\اں ش\\ریعت نہیں وہ\\اں۱۵آایت ۴ل\\ئے انجی\\ل مق\\دس میں آایت ۳حکم ع\\دولی بھی نہیں۔ اس ل\\ئے رومی\\وں " ش\\ریعت کےوس\\یلے س\\ے۲۰ب\\اب

گن\\اہ کی پہچ\\ان ہ\\وتی ہے" جیس\\ے ایکس\\رے س\\ے بگ\\اڑ ک\\ا پتہ ل\\گ جات\\اہے۔ لیکن ایکس\\رے تپ دق ک\\ا علاج نہیں۔ اس\\ی ط\\رح دنی\\ا کے ت\\ام م\\ذاہب پ\\اپی انس\\ان ک\\ا ایکس\\رے کردی\\تے ہیں۔ کہ وہ پ\\اپی ہے ی\\ا نہیں۔ لیکن گن\\اہ کے علم اور گن\\اہ س\\ے چھٹکارے میں فرق ہے۔ بیار ک\\ا علم ض\\رور ہے۔ اس\\ی ط\\رح گی\\ان ض\\رور ہے۔ااس س\\ے زی\\ادہ ض\\رور ہے اور وہ گن\\اہ س\\ے چھٹک\\ارہ ہے۔ نیکی ک\\ا علم لیکن علاج آاج دنیا میں ک\\وئی بھی پ\\اپی نہ ہوت\\ا ۔ کی\\ونکہ س\\ب انسان کو نیک نہیں بنادیتا ۔ ورنہ آادمی کی پوشاک پر داغ ہوں اورجب تک وہ انسانوں کو نیکی کا علم ہے۔ اگر کسی آانے ان\\دھیرے میں ہے وہ اپ\\نے داغ\\وں ک\\و دیکھ نہیں س\\کیگا۔ لیکن روش\\نی میں ااسے اپنی پوشاک پر داغوں کا علم ہوجائے گا۔ لیکن روشنی داغوں کو دور نہیں سے

کردیگی۔ اس کے لئے داغوں کو دور کرنے والی چیز استعال کرنی ضرور ہے۔ ۔ بعض لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ پہلے گناہوں کی س\\زا بھگت ک\\ر نج\\ات۳

حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن پہلے گنہگاروں کی سزا بھگت کر نجات حاصل کرنا ن\\امکن ہے۔ کی\\ونکہ گن\\اہ ای\\ک نافرم\\انی ہے۔ اوریہ نافرم\\انی خ\\دا کی بے ح\\د ذات کے خلاف ہے۔ لہذا اس کی سزا بھی بے حد ہوگی۔ سزا محض فعل کے لحاظ سے نہیں ہ\\وتی ۔ بلکہ

آادمی ااس ذات کے لح\\اظ س\\ے بھی ہ\\وتی ہے جس کے ب\\رخلاف فع\\ل کی\\ا ہے۔ ای\\ک آادمی کی بے ع\\زتی کرت\\اہے۔ پھ\\ر وہ کس\\ی مل\\ک کے س\\ب س\\ے ب\\ڑے ای\\ک مع\\ولی حاکم کی بے عزتی کرتاہے۔ دون\\وں جرم\وں میں س\\زا ف\\رق ف\\رق ہ\\وگی ۔ اس\\ی ط\\رح س\\ےااس کی س\\زا بے ح\\د ہ\\وگی جس س\\ے چھٹک\\ارا تت خ\\دا کے خلاف ہے گن\\اہ ج\\و ذا

نامکن ہے۔ ۔ ج\\\و ل\\\وگ اس فلس\\\فہ کے قائ\\\ل ہیں وہ یہ بھی ج\\\انتے ہیں کہ " نج\\\ات۲

صرف اچھے عل ک\رکے ہی م\ل س\\کتی ہے۔ اور ک\\رم ی\ونی میں جہ\\اں گن\\اہ کی س\\زا ملتی ہے۔ وہاں گناہ کرنے کا پھر امکان رہت\اہے۔ لہ\\ذا ک\رم اور بھ\\وگ دون\وں ک\ا سلس\لہآادمی پھ\\ر پ\\اپ ابرےکرموں کی وجہ سے جنم ملتاہے۔ اس جنم میں لامتناہی ہوجاتاہے ۔ کرتاہے۔ لہذا یہ بندھن قائم رہتاہے اور نجات ن\\امکن ہے۔ہیں دنی\\ا میں کس\\ی ای\\کاا ک\\وئی اا ، خی\\ال اا ، فعل آادمی کی مثال ایسی نہیں ملتی جس نے کرم یون\\انی میں ق\\ول گناہ نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ تو ایسا جیل خانہ معلوم ہوت\اہے جہ\اں پ\ر قی\\د` اس ل\ئے بھیجےاانہیں سزا د` ج\\ائے۔ لیکن وہ اس جی\\ل خ\\انے ابرے کاموں کی اان کے جاتے ہیں۔ کہ اجرم کرتے ہیں۔ جہاں انسانوں نے ایسی جگہیں بنائی ہیں۔ جہ\\اں مج\\رم میں اور بھی اانہ\\وں نے ایس\\ے انتظ\\ام ک\\ئے ہیں کہ قی\\د` وہ\\اں انسانوں کی سزا د` جائے۔ وہ\\اں اجرم نہ کرنے پائیں۔ لیکن یہ کیسا عجیب معلوم ہوتاہے کہ ج\و جگہ ی\ا حی\ثیت خ\دا نے پ\\رانے کرم\\وں کی س\\زا کےل\\ئے مق\\رر ک\\ر رکھی ہے ۔ وہ\\اں مج\\رم انس\\ان اور ج\\رم

کرسکتے ہیں۔ ۔ ایک فلسفہ سیدنا مسیح نے بتایا ہے اورجو عقل کے مطابق صحیح معلوم۴

ااس کی تصدیق کرتی ہے۔ خ\\دا میں دوخ\\اص ص\\فات ہیں۔ ہوتاہے۔ اور انجیل مقدس محبت اور پاکیزگی ۔محبت کا اظہار رحم میں اور پاکیزگی ک\\ا اظہ\\ار ع\\دل میں۔ خ\\داآات\\اہے۔ کی ذات میں ان میں س\\ے ای\\ک ص\\فت کے انک\\ار س\\ے خ\\دا ک\\ا انک\\ار لازم

اگرخدا میں محبت نہیں۔ تو وہ انسان سے محبت کا کیس\\ے مط\\البہ کرس\\کتاہے۔ اگ\\ر ااس میں پاکیزگی نہیں ت\\و انس\ان س\\ے کیس\\ے پ\\اکیزگی ک\\ا مط\\البہ کرس\\کتاہے گن\\اہ اور گناہ کی سزا لازم وملزوم ہونگے یا نہ ہونگے۔ اگ\\ر نہ ہ\\ولگے۔ ت\\و بغ\\یر ل\\زوم )لازم ہ\\ونے( کے سزا دینا باطل ہوگا۔اگر لازم وملزوم ہوں گے ت\\و گن\\اہ ک\\ا ہ\\رجہ کہیں نہ کہیں ض\\رور

پڑے گا۔ ہرجہ پڑنے کی چار صورتیں مکن ہیں۔ ۔ کچھ ہ\\رجہ مج\\رم پ\\ر پ\\ڑے اورکچھ مع\\اف کردیاج\\ائے یہ نہ ع\\دل ہوگ\\ا نہ۱

اجرم کا ہر جہ پڑگیا وہاں عدل کا تقاضہ تو پورا ہوگیا۔ لیکن وہ\\اں رحم ۔ کیونکہ جس ارم معاف کردیا گیا۔ وہاں رحم ک\\ا تقاض\\ہ ت\\و پ\\ورا رحم کا تقاضہ تو پورا نہ ہوا۔ اورجو ج

تہ عدل پورا نہ ہوا۔ ہوگیا۔ لیکن تقاض ۔ پورے کا پورا ہرجہ ذات مجرم کو برداش\\ت کرن\\ا پ\ڑے۔ ت\ویہ عین ع\\دل ت\\و۲

آائے گا۔ ہوگا۔ لیکن رحم کا انکار لازم ۔ مجرم پر کوئی ہرجہ نہ پڑے۔ سب معاف کردیا جائے۔ اس میں رحم ت\\و۳

آائے گا۔ خدا جو کام\\ل محبت اور کام\\ل پ\\اکیزگی پورا ہوگیا۔ لیکن عدل کا انکار لازم ہے۔ کام\\ل محبت ہ\\ونے کی وجہ س\\ے وہ رحم کرت\\اہے۔کام\\ل پ\\اکیزگی کی وجہ س\\ے ااسے پاپ س\\ے نف\\رت ہے۔ اس کی نف\\رت ک\\ا اظہ\\ار ع\\دل میں ہوت\\اہے ۔ پس وہ ایس\\ا نہیں کرسکتا۔ کہ وہ عدل کو نظر انداز کرکے ص\\رف رحم ہی ک\\رے ی\\ا رحم ک\\و نظ\\ر

انداز کرکے صرف عدل ہی کرے۔ پس ایک ہی صورت مکن رہے گی۔ ۔ عدل کی وجہ سے ہرجہ پورے کا پورا پڑے یہ ع\\دل ک\\ا تقاض\\ہ ہے۔ لیکن۴

تت رحم ہرجہ کوبرداش\\ت ک\\رے یہ عین رحم کی وجہ سے بجائے ۔ ذات مجرم کے ذا رحم ہے اس صورت میں خدا کی کامل محبت او رکامل پاکیزگی دونوں ک\\ا م ک\\رتیاپر محبت بھی ہیں۔ یہی مسیحی فلسفہ ہے۔ ایک مجسٹریٹ جو عادل بھی ہے اور ہے۔ وہ مجرم کو عدل کے تقاضہ کو پورا ک\\رنے کےل\\ئے جرم\\انہ کردیت\\اہے ۔ پھ\\ر رحم

ارمانے کی رقم کو اپ\\نی جیب س\\ے ادا کردیت\\ا ہے۔ جب ااس ج کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ انسان کےلئے اپنی کوششوں سے نجات حاصل کرن\ا ن\امکن ہے ت\واب یہ کس کی ذمہ دار ہے؟ کیا وہ ہیشہ کےلئے پ\\اپوں ہی میں پھنس\ا رہے۔ پھرنج\\ات ک\ون پاس\\کتا ہے" یہ انسان سے تو ہو نہیں سکتا۔ لیکن خدا سے سب کچھ ہوسکتاہے")ا( تونجات دینا خ\دا کی ذمہ دار ہے۔ اگ\ر انس\ان خ\ود نج\\ات پ\انہیں س\کتا اورنج\ات دی\نے کی

خدا کی ذمہ دار نہیں۔ تو اس میں دو دقتیں ہونگی۔۔ انسان کےلئے نجات حاصل کرنا نامکن ہوگا۔ ۱ ۔ اگرخدا انسان کو ایسی ہی ح\\الت میں رہ\\نے دے۔ ت\\و خ\\دا کی محبت۲

آائے گ\\ا۔ اور اگ\\ر خ\\دا میں محبت نہیں ت\\و وہ خ\\دا خ\\دا کہلانے ک\\ا ک\\ا انک\\ار لاز م ااس خ\\دا کی ذمہ دار ہے۔ اس کی تص\\دیق میں ک\\ئی مس\\تحق نہیں۔ تونج\\ات دین\\ا

۔ فط\\رت ج\\و خ\\دا کی۱ای\\ک ثب\\وت مل\\تے ہیں۔ اور فط\\رت میں ہیں ثب\\وت ملت\\اہے۔ ااس کی گواہی یہ ہے کہ جب انسانی جسم پر ک\\وئی نہ خم ل\\گ طبیعت کا اظہار ہے۔ ااس ک\\ا علاج ش\\روع جات\\اہے ت\\ویہ زخم چ\\اہے کس\\ی ح\\ادثہ س\\ے ہ\\و۔ فط\\رت خ\\ود ہی کردیتی ہے۔ خود جسم ہی میں ایسے جراثیم ہیں۔ ج\\و ص\\حت کےج\راثیم ہیں وہ زحم کا علاج کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ دوائياں بیرونی جراثیم س\\ے بچ\\اتی ہے ۔ لیکن زخمتدمل ہوجاتاہے اگر ہڈ` ٹوٹ جاتی ہے تو ج\وڑ لگ\نے ک\\ا ک\\ام ان اندرونی علاج سے ہی م خود بخود شروع ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر صرف ہڈ` کو س\\یدھا کرت\\اہے۔ لیکن ہ\\ڈ` ک\\ا ج\\وڑآادمی پرحلہ ک\\رتے ہیں۔ ت\\و فطرت لگاتی ہے۔ جب کسی بیار کے جراثیم کسی اان بی\\ار آادمی کے اپنے قصحت کے سیل )جراثیم( ااس آادمی کے علم کے ااس بغیر

کے جراثیم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ فطرت میں بھی بگاڑ کا علاج دکھائی دیت\\ا ہے۔ بچہااس ٹوٹی ہوئی ہڈ` چاہے اپنی نافرمانی کی وجہ سے اپنی ہڈ` توڑے۔ توبھی فطرت کے جوڑنےکا عل شروع کردی\\تی ہے۔ ت\\و فط\\رت خ\\دا کی ط\\بیعت ک\\ا اظہ\\ار ہے۔ ت\\و

جب فطرت بگاڑ کا علاج ک\\رتی ہے۔ ت\\و کی\\ا یہ خ\\دا کی ذمہ دار نہیں کہ وہ انس\\انآاتک بگاڑ کا علاج کرے۔ اگربچہ نافرمانی کی وجہ س\\ے درخت س\\ے گ\\ر ک\\ر کے ااس درد ن\\اک ح\\الت میں اس ل\\ئے چوٹ لگائے۔ توکونسان ایسا باپ ہے جوبیٹے کو ااس کی حکم ع\\دولی کی ہے۔ ب\\اپ کی محبت یہ کبھی ااس نے پ\\ڑا رہ\\نے دے کہ گوارہ نہیں کرسکتی کہ وہ زخی بی\\ٹے کے پ\\ا س کھ\\ڑا ہ\\وکر یہ کہے کہ یہ تہ\\ار

نافرمانی کی س\\زا ہے کہ تہ\\ار ہ\\ڈ` ٹ\و ٹ گ\ئی۔ لہ\\ذا تم اب ایس\ی ہی ح\الت میںآادمی جو کچھ بوتاہے وہی کاٹتا ہے "۔ میں تہار مدد نہیں کروں پڑے رہو"۔ کیونکہ ااس ک\\ا علاج گ\\ا۔ لیکن ب\\اپ کی محبت ک\\ا تقاض\\ہ یہ ہے۔ کہ وہ بی\\ٹے ک\\و اٹھ\\اکر ااس کروائے۔ تو خدا جس کی محبت انسانی باپ کی محبت سے بہت زیادہ ہے۔کیا کی گن\\اہ میں گرفت\\ار انس\\ان کےل\\ئے ک\\وئی ذمہ دار نہیں ۔ جس خ\\دا نے جس\\م کےآامت\\ک بگاڑ کے علاج کےلئے فط\\رت میں علاج رکھ\\ا ۔ اس نے خ\\دا کی انس\\ان کے

۔ انسان پیدائش سے پڑھا لکھا پی\\دا۲بگاڑ کو دور کرنے کی بہت بڑ ذمہ دار ہے۔ ااس ااستاد ایک وسیلہ پیدا کردیا ہے ت\\اکہ نہیں ہوتا بلکہ جاہل پیدا ہوتاہے۔ لیکن خدا نے آاگی\\انی آاتک طورپر کی جہالت دورہو۔ اور وہ علم حاصل کرسکیں۔اسی طرح انسان آات\ک گی\\ان حاص\ل پیدا ہوتاہے۔ لیکن خدا نے ایسا انتظام ک\ر رکھ\\اہے۔ کہ انس\ان ک\و ہوجائے توجب خدا کی یہ ذمہ دار ہے کہ جہالت کو دور ک\\رنے کےل\\ئے اس\\تاد مہی\\ا ک\\رے ت\\و کی\\ا خ\\دا کی یہ ذمہ دار نہیں کہ انس\\ان ک\\و پ\\اپ س\\ے چھٹک\\ارا دی\\نے

کےلئےنجات کا انتظام کرے۔ااس کی پ\\رورش کےل\\ئے وال\\دین ذمہ۳ آاپ نہیں کرس\\کتا۔ ۔ بچہ اپ\\نی پ\\رورش

اا طور پر ایسی ح\الت میں پی\دا ہوت\\اہے کہ وہ کس\ی دوس\رے دار ہیں۔ توجب بچہ فطرت کی امداد کے بغ\\یر س\\ن بل\\وغت ت\\ک نہیں۔ پہنچ س\\کتا۔ اس ل\\ئے فط\\رت میں ایس\\اااس کی پرورش ک\\رے۔ محت\\اج بچے کی احتی\\اج ک\\و پ\\ورا ک\\رنے نظام موجود ہے جو

کےلئے خدا نے والدین کا وسیلہ رکھاہے۔ تو خدا بچے کی پرورش کےلئے وسائل بہمااس\\ی خ\\دا پہنچاتاہے۔ کیونکہ ان وسائل کے بغیر بچہ کی پرورش نہیں ہوس\\کتی توکی\\ا کی یہ ذمہ دار نہیں۔ کہ جب انسان اپنی کوشش سے نجات نہیں پاسکتا۔ ت\\و خ\\دا

ااس کو نجات دینے کا انتظام کرے۔ ۔جسانی بگاڑ یعنی بیاریوں کے علاج کےلئے خدا نے انسان ک\و ایس\\ی۴

س\\\جھ بخش\\ی کہ حکیم اور ڈاک\\\ٹروں نے بی\\\اریوں کے علاج کرل\\\ئے۔ اور خ\\\دا نے فط\\رت میں ایس\ی چ\\یزیں پی\\دا ک\\ردیں۔ جن س\ے بی\\اریوں ک\\ا علاج ہوس\\کے۔اگ\\ر خ\\دا حکیم اور ڈاک\\تر بن\\نے کی س\\جھ نہ دیت\\ا اور دنی\\ا میں ادوی\\ات کےل\\ئے چ\\یزیں پی\\دا نہ کرت\\ا۔ ت\\و انس\\ان محض اپ\\نی کوش\\ش س\\ے کس\\ی بی\\ار س\\ے بھی ش\\فا نہ پاس\\کتا۔ توجس خ\دا نے فط\رت میں انس\ان کی جہ\الت ک\ودور ک\رنے کے ل\ئے اس\تاد دیئ\یے۔ آات\ک جہ\\الت ک\ودور ک\رنے کےل\ئے م\ذہبی کت\\ابیں دیں۔ اور انس\انی بچہ کی پ\رورش کے ل\\ئے م\\ددگار دئ\\یے ۔ انس\\ان کے جس\\انی بگ\\اڑ ک\\و دور ک\\رنے کےل\\ئے ش\\فا کے وس\\یلے)ڈاک\\ٹر اور ادوی\\ات( دئ\\يے۔ توکی\\ا اس خ\\دا کی ب\\ڑ ذمہ دار یہ نہیں کہ انس\\انآاتک حکیم ک\\ا انتظ\\ام ک\رے۔ اگ\\ر کس\ی بی\ار آاتک بگاڑ کو دورکرنے کےلئے کے بچے ک\\ا ب\\اپ حکیم ہ\\و۔ ت\\وحکیم ہ\\ونے کی وجہ س\\ے وہ بچے کے جس\\انی بگ\\اڑ( سے نفرت کریگا لیکن باپ ہونے کی وجہ سے بچے سے پیار کرے گ\\ا۔ اگ\\ر )بیار وہ بچے کا علاج نہ کرے۔ تو دوباتوں میں سے ایک ب\ات ث\ابت ہ\وگی۔ ی\ا ت\و وہ اپ\نے بچے کا علاج کرنانہیں چاہتا۔ اس سے اس کی اپ\\نے بی\\ٹے س\\ے محبت ک\\ا انک\\ار لازمااس کی ق\\درت آائے گا ۔ یا یہ کہ وہ علاج کرنا چاہتاہے لیکن کر نہیں سکتا۔ اس سے آائے گا۔ خدا جو کہ ب\\اپ بھی ہے اور ق\\ادر بھی ہے۔ ب\\اپ ہ\\ونے کی وجہ کا انکار لازم س\\\\ے وہ علاج ک\\\\ئے بغ\\\\یر رہ نہیں س\\\\کتا۔ اور ق\\\\ادر ہ\\\\ونے کی وجہ س\\\\ے وہ علاجاپر محبت نہیں تو خدا ہونے کا مستحق نہیں۔ اگر قادر نہیں ۔ تو کرسکتاہے۔ اگر خدا

اپر محبت بھی ہے اور ق\\ادر محت\اج بھی خ\دا کہلانے ک\\ا مس\تحق نہیں۔ پس جب وہ ااس ک\\و بھی ہے۔ توگنہگار انسان جو گناہ سے اپ\\نی کوش\\ش س\\ےچھوٹ نہیں س\\کتا ارمحبت اور ق\\ادر خ\\دا کی ذمہ دار ہے۔ اس\ی ل\\ئے آات\ک بگ\اڑ س\ے چھٹک\ارا دین\\ا پ\ااس نےکہ\\ا " م کی\\ا۔ آاتک حکیم ہونے ک\\ا دع\\و سیدنا مسیح نے جو مجسم خدا ہے تندرس\\\توں ک\\\و حکیم درک\\\ار نہیں۔بلکہ بی\\\اروں ک\\\و میں راس\\\تبازوں ک\\\و نہیں بلکہم میں وہ لاث\\انی ہے۔ کس اور نے آای\\اہوں ۔ اس دع\\و گنہگ\\اروں ک\\و ت\\وبہ کےل\\ئے بلانے ااسے گناہ س\\ے نف\\رت ہے۔ لیکن گنہگ\\ار انس\\ان م نہیں کیا۔ نجات دہندہ ہونے کا دعوااس کی بی\\ار س\\ے سے پیار ہے۔ جیسے باپ کو بی\\ار بی\\ٹے س\\ے پی\\ا رہوت\اہے ۔لیکن نف\\رت ہ\\وتی ہے۔ اوراس\\ی وجہ س\\ے ب\\اپ ک\\و بی\\ار بی\\ٹے کی بی\\ار س\\ے قل\\بی دکھآات\ک ہوتاہے۔ اس طرح س\ے خ\دا ک\و انس\ان س\ے پی\ار ہے۔ لیکن گن\اہ ج\و انس\ان ک\ا ااس سے نفرت ہے لہذا انسانوں کو گناہ میں گرفتار دیکھ کر خ\\دا ک\\و دکھ بگاڑ ہے۔ ااس\ے کتن\\ا دکھ ہوت\\اہے ۔ لیکن اگ\ر ہوتاہے۔ کس\ی ب\اپ ک\ا ای\ک بیٹ\\ا بی\ار ہوج\ائے ت\و سارے ہی بیٹے بیار ہوجائیں تو کتنا زیادہ دکھ ہوگا۔اسی طرح خدا جو بے حد پاکااس کے بیش\\ار بی\\ٹے گن\\اہ میں گرفت\\ار ہے اورجس کا احساس بھی بے ح\\د ہے جب ادور ک\\رنے ک\\ا یہ ک\\وئی ط\\ریقہ ہوگ\\ئے ت\\و اجس\\ے کس ق\\در دکھ ہ\\وا ہوگ\\ا ۔ بی\\ار کے نہیں کہ بی\\ار بی\\ٹے ک\\و م\\اردو۔ نہ بیٹ\\ا رہ\\ا نہ بی\\ار ہی۔ اس\\ی ط\\رح س\\ے گن\\اہ ک\\و دورکرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔ کہ گنہگار کو ختم کردی\ا ج\ائے ت\اکہ نہ گنہگ\ار رہے اور نہ گناہ۔ علاج یہ ہےکہ گناہ ختم کیا جائے۔ تاکہ گنہگ\ار پ\\اک بن ج\ائے۔ انس\ان کے گناہ کرنے سے خدا کو جو دکھ ہوا اس کا بیان خدا کی طرف سے انس\\انی ب\\ولی میں بائبل مقدس میں یوں کی\\ا گی\\اہے" میں نے ای\ک نافرم\ان اور حج\\تی ق\\وم کی ط\\رف اپنے ہاتھ بڑھائے کھڑا رہا " اور کہا" ماں دودھ پیتے بچے ک\\و بھ\\ول ج\\ائے بھ\\ول ج\\ائے

لیکن میں کبھی نہیں بھولوں گا"۔

ااس کے گناہ کرنے سے خ\\دا لیکن انسان خدا کے اس بے حد دکھ کو جو کو ہوتاہے نہ سجھ سکا۔ تب خدا کا وہی باطنی دکھ س\\یدنا مس\\یح کی زن\\دگی میں دکھائی دیتاہے۔ وہ یروشلیم پر رویا اوریہ بھی کہا " اے عورتو! میرے ل\\ئے نہ روؤ تب وہ دکھ سیدنا مسیح کی صلیب میں مجسم ہوتاہے۔ اور سیدنا مسیح کا مصلوب ہونا خدا کےبے ح\\د پوش\\یدہ دکھ\\وں ک\\ا تجس\\م ہے۔انس\\ان کے پ\\اپ ک\\رنے س\\ے خ\\دا کوج\\و ب\اطنی دکھ ہوت\اہے وہ س\یدنا مس\یح کے ص\لیبی دکھ میں مجس\م دکھ\\ائی دیت\\اہے لوق\ا

" مگر وہ چلا چلا کرسر ہ\\وتے رہے کہ وہ مص\لوب کی\\ا ج\\ائے اور۴۸تا ۲۳آایت ۲۳باب ان کا چلا نا کارگر ہوا۔ پس پیلاطس نے حکم دیاکہ ان کی درخواست کے موافق ہو۔ اور جو شخص بغاوت اور خون کرنے کے سبب سے قی\\د میں پ\ڑا تھ\\ا اور جس\ے انہ\وںآاپ ک\\و ان کی مرض\\ی کے مواف\\ق س\\پاہیوں کے ح\\والہ نے مانگا تھا اسے چھوڑ دیا مگر آاپ کو لئے جاتے تھے تو انہوں نے شعون نام ایک کرینی کو جو دیہات کیا۔اور جب

آاپ کے پیچھے پیچھے لے چلے ۔ آاتا تھا پکڑ کر صلیب اس پر لاد` کہ سے آاپ آاپ کے لئے روتی پیٹتی تھیں اور لوگوں کی ایک بڑ بھیڑ اور بہت سی عورتیں جو آاپ نے ان کی طرف پھر فرمایا اے یروشلم کی بیٹیو! میرے کے پیچھے پیچھے چلیں۔ آاتے ہیں جن ل\ئے نہ رو بلکہ اپ\نے اور اپ\نے بچ\\وں کے ل\\ئے رو۔ کی\\ونکہ دیکھ\\و وہ دن ت ب\\\رکت ہیں ب\\\انجھیں اور وہ رحم ج\\\و ب\\\ارور نہ ہ\\\وئے اور وہ میں کہیں گے کہ ب\\\اعث چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع ک\\ریں گے کہ ہم پر گر پڑ و اور ٹیلوں سے کہ کہیں چھپالو۔ کیونکہ جب ہر درخت کے ساتھ ایسا کرتےآادمی\\وں ک\\و بھی ج\و ہیں تو سوکھے کے ساتھ کیاکچھ نہ کی\\ا ج\\ائے گ\\ا۔اور وہ دو اور آاپ اس جگہ آاپ کے س\\اتھ قت\\ل ک\\ئے ج\\ائیں۔ جب ب\\دکار تھے ل\\ئے ج\\اتے تھے کہ آاپ ک\و مص\لوب کی\ا اور ب\دکاروں ک\و بھی پہنچے جسے کھوپڑ کہتے ہیں ت\و وہ\\اں می نے فرمای\\ا : اے پروردگ\\ار ایک کو دہنی اور دوسرے ک\\و ب\\ائیں ط\\رف ۔ س\\یدنا عیس\\

آاپ کے ک\\و مع\\اف فرم\\ادیجئے کی\\ونکہ یہ نہیں ج\\انتے کہ کی\\اکرتے ہیں۔ اور انہ\\وں نے ک\\پڑوں کے حص\\ے ک\\ئے اور ان پ\\ر ق\\رعہ ڈالا۔ اور ل\\و گ کھ\\ڑے دیکھ رہے تھے اور سردار بھی ٹھٹھے مار مار کر کہتے تھے کہ اس نے اوروں ک\\و بچای\\ا ۔ اگ\\ر یہ پروردگ\\ارآاپ کو بچائے ۔ سپاہیوں نے بھی پاس کا مسیح موعود اور اس کا محبوب ہے تو اپنے

آاپ پر ٹھٹھا مار ا اور کہا کہ ) ( اگر تم یہودیوں کے بادشاہ37آاکر اور سرکہ پیش کرکے آاپ کو بچاؤ۔ ) آاپ کی ص\لیب پ\ر لگای\ا دی\ا کہ یہ38ہو تو اپنے (اور ای\ک نوش\تہ بھی

یہودیوں کا بادشاہ ہے ۔آاپ ک\\و ی\\و ں طعنہ دی\\نے پھر جو بدکار صلیب پر لٹکائے گ\\ئے تھے ان میں س\\ے ای\\ک آاپ ک\\و اور ہیں بچ\\اؤ۔مگ\\ر دوس\\رے نے اس\\ے لگ\\ا کہ کی\\ا تم مس\\یح نہیں؟ ت\\و اپ\\نے جھ\\ڑک ک\\ر ج\\واب دی\\ا کہ تم پروردگ\\ار س\\ے بھی نہیں ڈرتے ح\\الانکہ اس\\ی س\\زا میں گرفتار ہو؟ اور ہار سزا تو واج\بی ہے کی\\ونکہ اپ\\نے ک\\اموں کاب\\دلہ پ\ارہے ہیں لیکن اسآاپ اپنی می ناصر جب آاپ سے کہا عیس نے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔ پھر اس نے آاپ نے اس سے فرمای\ا میں س\ے کہت\ا ہ\\وں آائے تو مجھے یاد رکھیئے گا۔ بادشاہی میں ت فردوس میں ہوگے۔ پھ\\ر دوپہ\\ر کے ق\\ریب س\\ے تیس\رے آاج ہی تم میرے ساتھ جنت کہ

ک\\اہپہرتک ملک میں اندھیرا چھایا رہا ۔ اور سورج کی روشنی جاتی رہی اور بیت اللآاواز سے پکار کر فرمایا اے پروردگار میں اپ\\نی آاپ نے بڑ پردہ بیچ سے پھٹ گیا۔ پھر آاپ کے ہ\\اتھوں میں س\\ونپتا ہ\\وں اور یہ کہہ ک\\ر ش\\ہید ہوگ\\ئے ۔ یہ م\\اجرا دیکھ ک\\ر روح آا دمی پارسا تھا ۔ اور جتنے صوبہ دار نے پروردگار کی تجید کی اور کہا بیشک یہ

آائے تھے یہ ماجرا دیکھ کر چھاتی پیٹتے ہوئے لوٹ گئے ۔ لوگ اس نظارہ کو اب س\\یدنا مس\\یح میں نج\\ات ک\\ا مک\\ل انتظ\\ام کردی\\ا گی\\ا ہے۔ بی\\ار ک\\ا مکل علاج یہ ہے کہ ج\و اث\رات بی\ار کے جس\م میں پی\دا ہ\\و گ\ئے ہیں وہ ج\اتےآائندہ کے لئے ایسی طاقت م\\ل ج\\ائے ج\\و بی\\ار کے ج\\راثیم پ\\ر فتح پاس\\کے۔ رہیں۔

آات\ک بگ\اڑ س\ے م کی\\ا ہے ۔ اس نے سیدنا مسیح نے جو نج\\ات دہن\دہ ہ\\ونے ک\ا دع\\و " اگ\\ر۹آایت ۱یوحنا ب\\اب ۱چھڑانے کےلئے یہی کام کیا۔ پہلا کام پرانے گناہ مٹادینا۔

اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہیں سار ناراس\\تیمی میں تص\\دیق کہ\\ا س\\ے پ\\اک ک\\رنے میں س\\چا اورع\\ادل ہے" جس\\ے مس\\یحی علم الہآاتک ااس\ے جاتاہے۔ یعنی بگاڑ دیا گیا ۔ دوسرا کا م بیار ک\و تندرس\ت ٹھہ\را دی\ا گی\ا ۔می میں تق\\دیس کہ\\ا جات\\اہے۔ ط\\ورپر پ\\اک ق\\رار دے دی\\ا گی\\ا۔ جس\\ے مس\\یحی علم الہابرف کی مانن\\د س\\فید کردئ\\یے ج\\ائیں گے۔ میں "اگ\\رچہ ہ\\ارے گن\\اہ قرم\\ز ہ\\وں وہ ااس نے گن\\اہ ہی نہیں تہار خطاؤں کو یاد نہ کرونگا"۔ ایسا پاک ٹھہرادیتاہے جیسے

کیا۔ کامل تندرست بنادیتاہے۔می میں متن\\بی کہ\\ا جات\\اہے۔ یع\\نی۳ ۔ وہ نیا بتادیتاہے۔جس\\ے مس\\یحی علم الہ

بیٹا بنالی\ا" اب\ا یع\\نی اس\ےباپ کہہ ک\\ر پک\ارتے ہیں" انجی\\ل مق\\دس میں اس تج\\ربہ ک\و کئی ایک الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔نئی پیدائش جب تک نئے سرے سے پیدا نہ ہو

"۵آایت ۳" خدا کے فرزند بننے ک\\ا ح\\ق بخش\\ا" پ\\اک روح حاص\\ل کرن\\ا۔ ططس ب\\اب ااس نے سبھوں کو نجات د` مگر راستباز کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم تو نے خ\\\ود ک\\\ئے ۔ بلکہ اپ\\\نی رحت کے مط\\\ابق ن\\\ئی پی\\\دائش کے غس\\\ل اور روح القدس کے ہیں نیا بنانے کے وسیلہ سے ۔ نیا مخلوق ،مسیح میں نیا مخلوق ۔ پ\\رانی چیزیں ج\\اتی رہیں۔دیکھ\\و وہ ن\\ئی بن گ\\ئیں۔ درخت میں ای\\ک پیون\\د لگادی\\ا جات\\اہے۔ جس س\\ے اس کی نیچ\\ر ب\\دل ج\\اتی ہے ۔ کھ\\ٹے کے پ\\ودے میں س\\نگترے ک\\ا پیون\\دااس میں بجائے کھ\\ٹے پھ\\ل کے میٹھے لگانے سے کھٹے کی نیچر بدل جاتی ہے۔ اور پھل لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح سیدنا مسیح کو ایان سے قبول کرلی\\نے س\\ےوہ دل میں آاجاتاہے اورانسان کی نیچ\ر ب\دل ج\اتی ہے"۔ ای\ان کے وس\یلے س\ے مس\یح تہ\ارے دلوں میں سکونت کرے "۔ خدا نیا روح انسان میں ڈال دیتاہے ۔ جس سے انسان کی

ااس نیچر بدل جاتی ہے۔ یہی مکل نجات ہے۔ اورانسان ج\\و نج\\ات ک\ا محت\\اج ہے۔ کی احتیاط کو رفع ک\رنے کےل\ئے ص\رف س\یدنا مس\یح نے ہی نج\\ات دہن\دہ ہ\\ونے ک\ام نہیں کی\\ا۔ لہ\\ذا وہ اس دع\\وے کے لح\\اظ س\\ے م کیا ۔ او رکس\\ی نے ایس\ا دع\\و دعو

لاثانی ہے۔م یہ کیاکہ وہ مرکر تیسرے دن مردوں میں سے۱ ۔ سیدنا مسیح نے تیسرا دعو

اامی\\د ہے۔ ب\\ابکرنتھی\\وں ۱زندہ ہوگیا۔ وہ انسان کی قیامت )دوبارہ زن\\دہ ہوج\\انے ( کی می کے مط\\ابق جی اٹھے۔ اور۵۸س\\ے ۳آایت ۱۵ تم الہ " اور دفن ہ\\وئے اورتیس\رے دن کلا

کیفا اور اس کے بعد ان بارہ کو دکھائی دیئے۔ پھر پانچ سو سےزيادہ بھائیوں کوای\\ک س\\اتھ دکھ\\ائی دی\\ئے۔ جن میں س\\ے اک\\ثر اب ت\\ک موج\\ود ہیں اور بعض س\\وگئے ۔پھ\\ر حضرت یعقوب کو دکھائی دئیے ، پھ\\ر س\\ب رس\ولوں ک\\و اور س\\ب س\\ے پیچھے مجھ کو ج\و گوی\\ا ادھ\ورے دن\\وں کی پی\\دائش ہ\\وں دکھ\\ائی دی\\ئے۔ کی\\ونکہ میں رس\\ولوں میں سب سے چھوٹا ہوں بلکہ رسول کہلانے کے لائ\\ق نہیں اس ل\\ئے کہ میں نے پروردگ\\ار کی جاعت کو ستایا تھا۔ لیکن جو کچھ ہوں پروردگار کی مہرب\\انی س\\ے ہ\\وں اور ان کی مہربانی جو مجھ پر ہوئی وہ بے فائدہ نہیں ہوئی بلکہ میں نے ان سب س\ے زي\\ادہ محنت کی اورمیر طرف سے نہیں ہوئی بلکہ پروردگار کی مہرب\انی س\ے ج\و مجھ پر تھی۔ پس خواہ میں ہوں خ\واہ وہ ہ\وں ہم یہی تبلی\غ ک\رتے ہیں اور اس\ی پ\ر تم ای\انمی مسیح کی یہ تبلیغ کی ج\\اتی ہے کہ وہ م\\ردوں میں بھی لائے۔ پس جب سیدنا عیس سے جی اٹھے تو تم میں سے بعض کس طرح کہتے ہیں کہ مردوں کی قی\\امت ہے ہیمی مس\\یح بھی نہیں جی اٹھے۔اور نہیں۔ اگ\\ر م\\ردوں کی قی\\امت نہیں ت\\و س\\یدنا عیس\\می مس\\یح نہیں جی اٹھے ت\\و ہ\\ار تبلی\\غ بھی بے فائ\\دہ ہے اور تہ\\ارا اگ\\ر س\\یدنا عیس\\ ایان بھی بے فائ\\دہ ۔ بلکہ ہم پروردگ\\ار کے جھ\\وٹے گ\\واہ ٹھہ\\رے کی\\ونکہ ہم نے ربمی مس\\یح ک\\و زن\\دہ کی\\ا الع\\الین کی ب\\ابت یہ ش\\ہادت د` کہ انہ\\وں نے س\\یدنا عیس\\

ح\\الانکہ نہیں جلای\\ا اگ\\ر ب\\الفرض م\\ردے نہیں جی اٹھ\\تے۔اور اگ\\ر م\\ردے نہیں جیمی نہیں جی می مس\یح بھی نہیں جی اٹھے ۔ اور اگ\ر سیدناعیس\ اٹھ\تے ت\و س\یدنا عیس\ اٹھے تو تہ\ارا ای\ان بے فائ\دہ ہے تم اب ت\ک اپ\نے گن\اہوں میں گرفت\\ار ہ\\و ۔ بلکہ ج\\و سیدنا مسیح میں سوگئے ہیں وہ بھی ہلاک ہوئے۔ اگرہم صرف اسی زن\دگی میں س\یدنا

آادمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔ مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب لیکن فی الواقع سیدنا مسیح مردوں میں سے جی اٹھے ہیں اور جو س\\وگئے ہیں ان میںآادمی ہی کے آائی ت\\و آادمی کے س\\بب س\\ے م\\وت پہلا پھ\\ل ہ\\وئے ۔ کی\\ونکہ کہ جب آادم میں سب م\\رتے ہیں ویس\\ے ہی آائی۔ اورجیسے سبب سے مردوں کی قیامت بھی می مسیح میں سب زن\دہ ک\ئے ج\ائیں گے ۔ لیکن ہ\\ر ای\ک اپ\نی اپ\نی ب\ار سیدنا عیس

آانے پر ان کے ل\\وگ ۔ اس کے بع\\د سے ۔پہلا پھل سیدنا مسیح، پھرسیدنا مسیح کے آاخ\\رت ہ\\وگی۔ اس وقت وہ س\\ار حک\\ومت اور س\\ارا اختی\\ار اور ق\\درت نیس\\ت ک\\رکے بادشاہی کو پروردگ\ار کے ح\والہ ک\ردیں گے ۔ کی\ونکہ جب ت\ک کہ وہ س\ب دش\نوںآائیں ان کو بادشاہی کرنا ضرور ہے ۔ سب س\\ے پچھلا دش\\ن کو اپنے پاؤں تلے نہ لے جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔ کیونکہ پروردگار نے س\\ب کچھ ان کے پ\\اؤں تلے کردیا ہے مگر جب وہ فرماتے ہیں کہ سب کچھ ان کے تابع کردی\ا گی\\ا ت\و ظ\اہر ہے کہ جس نے سب کچھ ان کے تابع کردیا وہ الگ رہے۔ اور جب سب کچھ ان کے ت\\ابع ہوجائے گا تو ابن الله خود ان کے تابع ہوجائیں گے جس نے سب چیزیں ان کے تابع

کردیں تاکہ سب میں پروردگار ہی سب کچھ ہو۔ ورنہ ج\\و ل\\وگ م\\ردوں کے ل\\ئے اص\\طباغ لی\\تے ہیں وہ کی\\ا ک\\ریں گے ؟ اگ\\ر مردے جی اٹھتے ہی نہیں تو پھر کیوں ان کے لئے اصطباغ لیتے ہیں ؟ اورہم کی\\وں ہر وقت خطرہ میں پڑے رہتے ہیں ؟ اے دینی بھائیو! مجھے اس فخر کی قسم ج\\ومی مسیح میں تم پر ہے میں ہر روز مرتا ہوں۔ اگر میں انس\\ان آاقا ومولا سیدنا عیس ہارے

کی ط\\رح افس\\س میں درن\دوں س\ے ل\\ڑا ت\ومجھے کی\\ا فائ\دہ ؟ اگرم\\ردے نہ زن\دہ ک\ئےار آاؤ کھائیں پیئں کیونکہ کل تو م\رہی ج\ائیں گے ۔ ف\\ریب نہ کھ\\اؤ، ب\ جائیں گے تو

آاؤ اور گن\اہ صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔ سچے ہ\ونے کے ل\ئے ہ\\وش میں نہ کرو کیونکہ بعض پروردگ\\ار س\\ے ن\\اواقف ہیں۔ میں تہیں ش\\رم دلانے ک\\و یہ کہت\\ا ہ\\وں ۔اب ک\\وئی یہ کہے گ\\ا کہ م\\ردے کس ط\\رح جی اٹھ\\تے ہیں اورکیس\\ے جس\\م کےآاتے ہیں ؟ اے ن\\ادان! تم خ\\ود ج\\و کچھ ب\\وتے ہ\\و جب ت\\ک وہ نہ مرج\\ائے زن\\دہ س\\اتھ نہیں کیا جاتا ۔ اور جو تم بوتے ہ\\و یہ وہ جس\م نہیں ج\و پی\دا ہ\\ونے والاہے بلکہ ص\\رف دانہ ہے ۔خواہ گیہوں کا خواہ کسی اور چیز ک\\ا ۔ مگ\\ر پروردگ\ار نے جیس\\ا ارادہ کرلی\\ا ویسا ہی اس کو جسم دیتے ہیں اورہرایک بیج کو اس کاخ\\اص جس\\م۔ س\\ب گوش\\تآادمیوں کا گوش\ت اور ہے۔ چوپ\ایوں ک\ا گوش\ت اور۔ پرن\دوں یکسا ں گوشت نہیں بلکہ آاسانی بھی جسم ہیں اور زمینی بھی مگر کا گوشت اور ہے مچھلیوں کا گوشت اور ۔ آافت\\اب کی ب\\زرگی اور ہے مہت\\اب کی ب\\زرگی آاسانیوں کی بزرگی اور ہے زمینیوں کی اور۔ اور۔ستاروں کی ب\زرگی اور کی\ونکہ س\تارے ،س\\تارے کی ب\زرگی میں ف\\رق ہے۔ م\ردوں کی قیامت بھی ایسی ہی ہے۔جسم فنا کی ح\\الت میں بوی\\ا جات\\اہے اوربق\\ا کی ح\الت میں جی اٹھت\\اہے ۔بے حرم\\تی کی ح\\الت میں بوی\\ا جات\\اہے اورب\\زرگی کی ح\\الت میں جی اٹھت\\اہے ۔ ک\\زور کی ح\\الت میں بوی\\ا جات\\اہے اور ق\\وت کی ح\\الت میں جی اٹھت\\اہے ۔ نفس\\انی جس\\م بوی\\ا جات\\اہے اور روح\\انی جس\\م جی اٹھت\\اہے ۔ جب نفس\\انیآادم آادمی یع\\نی جس\\م ہے ت\\و روح\\انی جس\\م بھی ہے ۔ چن\\انچہ لکھ\\ا بھی ہے کہ پہلا آادم زندگی بخشنے والی روح بن\\ا۔ لیکن روح\\انی پہلے نہ تھ\\ابلکہ زندہ نفس بنا۔پچھلا آاد` زمین س\\ے یع\\نی خ\\اکی تھ\\ا۔دوس\را نفسانی تھ\\ا۔ اس کے بع\\د روح\\انی ہ\\وا ۔ پہلا

آاسانی ہے۔) ( جیسا وہ خاکی تھا ویس\\ا ہی اور خ\\اکی بھی ہیں اور جیس\\ا۴۸آادمی

آاسانی بھی ہیں۔ اورجس طرح ہم اس خاکی کی صورت پر آاسانی ہے ویسا ہی اور وہ آاسانی کی صورت پر بھی ہوں گے ۔ ہوئے اسی طرح اس

اے دی\\\نی بھ\\\ائیو! م\\\یرا مطلب یہ ہے کہ گوش\\\ت اور خ\\\ون پروردگ\\\ار کی بادشاہی کے وارث نہیں ہوسکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہوس\\کتی ہے ۔دیکھ\\و میں تم س\\ے راز کی ب\\ات کہت\\اہوں۔ہم س\\ب ت\\و نہیں س\\وئیں گے مگ\\ر س\\ب ب\\دل ج\\ائیں گے۔ اوریہ ای\\ک دم میں ،ای\\ک پ\\ل میں، پچھلا نرس\\نگا پھونک\\تے ہی ہوگ\\ا کی\\ونکہ نرس\\نگا پھونک\ا ج\\ائے گ\\ا اورم\ردے غ\\یر ف\\انی ح\\الت میں اٹھیں گے اورہم ب\\دل ج\ائیں گے ۔ت کی\\ونکہ ض\رور ہے کہ یہ ف\انی جس\م بق\\ا ک\ا ج\امہ پہ\نے اوریہ م\رنے والاجس\م حی\ات ابد` کا جامہ پہنے ۔ اورجب یہ ف\\انی جس\\م بق\\ا ک\\ا ج\\امہ پہن چکے گ\\ا اور یہ م\\رنےت ابد` کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوجائے گ\\ا ج\\و لکھ\\اہے والا جسم حیات کہ موت فتح ک\ا لقہ ہوگ\\ئی۔ اے م\وت ت\یر فتح کہ\\ا ں رہی ؟ اے م\وت ت\\یرا ڈن\ک

( مگ\ر پروردگ\ار ک\ا۵۷کہاں رہا ؟موت کا ڈنک گناہ ہے اور گن\\اہ ک\ا زور ش\ریعت ہے۔)می مس\یح کے وس\\یلہ س\\ےہم ک\\و فتح عطافرم\\اتے آاقا ومولا سیدنا عیس\ شکرہے جو ہارے ہیں۔ پس اے دی\\نی بھ\\ائیو! ث\\ابت ق\\دم اورق\\ائم رہ\\و اور پروردگ\\ار کے ک\\ام میں ہیش\\ہ افزایش کرتے رہ\\و کی\\ونکہ یہ ج\\انتے ہ\\و کہ تہ\\ار محنت پروردگ\\ار میں بے فائ\\دہ نہیں

"۔ہے دنیا میں ہر شے ۔ تبدیل ہ\\وتی ہے۔ اورتب\دیل فن\ا ہوج\انے ک\ا ثب\وت ہے۔تب\دیلی موت کا ثبوت ہے ۔بچہ جب بدل کر ج\\وان ہوت\\اہے۔ ت\\و ج\\وانی س\\ے ض\\رور بڑھ\\اپے کیآاخر مر جائيگا۔ دنیا کی ہر ش\\ئے زوال پ\\ذیر ہے۔ لہ\\ذا ہ\\ر ش\\ئے فن\\ا کے طرف مائل ہوگا۔ تابع ہے۔ موت ایک خوفناک اوربھیانک شے ہے۔ ہر ایک اس سے دوچار ہونا ہے۔ ایس\\ا کوئی فلسفہ نہیں ج\\و اس ک\\ا علاج پیش کرس\\کے۔ م\\وت ای\\ک ت\\اریکی دکھ\\اتی ہے۔ فلاسفر سقراط بھی اپنے چیلوں کو یقین کے ساتھ بتاسکا۔کہ موت کی\\ا ہے؟ اور م\\وت

کے بعد کیا ہے؟ موت ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسان میں ہیشہ زندہ رہنے کا ہہ گیرااس کی روح ہی زن\\دہ ہے ااس کی طبعی خ\\واہش یہ ہے کہ نہ ص\\رف ج\\ذبہ موج\\ود ہے ااس ک\\\\\\ا جس\\\\\\م بھی زن\\\\\\دہ رہے۔ ت\\\\\\و خ\\\\\\دا نے انس\\\\\\ان میں جت\\\\\\نی طبعی بلکہ اان کے پورا کرنے کے وس\\ائل بھی پی\\دا کردئ\\یے ہیں۔ )نیچرل(خواہشات پیدا کی ہیں۔ جہاں انسان میں بھوک کی طبعی خواہش رکھی وہاں فطرت میں خوراک بھی پی\\دا کرد` جس سے وہ اپنی طبعی خواہش کو پورا کرسکے۔ جہاں انسان کو پھپھڑے دئیےآاکسیجن کی ضرورت رکھی۔ وہاں فطرت میں ہوا بھی پیدا کرد`۔ اسی اان کے لئے اور طرح سے جس خدا نے انسان کی ع\\ام طبعی ض\رورتوں ک\\و پ\\ورا ک\رنے ک\\ا انتظ\\ام کی\\ا۔ااس خدا کی یہ ذمہ دار ہے کہ انسان کی سب سے بڑ طبعی خواہش کے پورا وہاں کرنے کا انتظام کرے۔ انسان ہیش\ہ ت\ک زن\دہ رہن\\ا چاہت\اہے۔ یہ ای\ک طبعی خ\واہش ہے۔ خ\\\دا کی یہ ذمہ دار ہے کہ وہ انس\\\ان کی اس خ\\\واہش کی تکی\\\ل کے وس\\\ائل پی\\\دا ک\\\رے۔ اگ\\\راس کے تکی\\\ل کے وس\\\ائل نہیں ت\\\و انس\\\ان کی زن\\\دگی اش\\\رف الخلوق\\ات )مخلوق\\ات میں س\\ب س\\ے بہ\\تر( زن\\دگی نہیں ہوس\\کتی بلکہ انس\\ان کیتب عقل ہونے کی وجہ سے سب س\ے زي\ادہ معل\ون ہ\\وگی۔ کی\ونکہ عق\\ل زندگی صاح کی بن\\ا پ\\ر وہ یہ جانت\\اہے کہ میں نے مرجان\\ا ہے۔ اورہیش\\ہ کی زن\\دگی ک\\ا م\\یرے ل\\ئے کوئی انتظام نہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کو فک\ر من\\د` نہیں۔ وہ نہیں ج\انتے کہ ہم نے مرجان\\ا ہے۔ ج\\انوروں کے بچے م\\رتے ہیں۔ وہ جل\\د بھ\\ول ج\\اتے ہیں۔ لیکن انس\\ان سار زندگی بھر اپنے عزیزوں کی جدائی کا غم ہیشہ اپنے ساتھ لئے پھرتاہے یا ت\و یہ بہتر ہوتاکہ خدا انسان میں ہیشہ زندہ رہنے کی طبعی خ\واہش ہی پی\دا نہ کرت\ا ۔ اور اگر یہ خواہش انسان میں رکھی ہے تو اس کی تکی\\ل کے وس\\ائل پی\\دا کرن\\ا خ\\دا کی

فی الواق\\\ع۲۰آایت ۱۵کرنتھی\\وں ب\\اب ۱ذمہ دار ہے۔مس\\یحی فلس\\فہ یہی بتات\\ا ہے۔ اان میں پہلا پھ\\ل ہ\\وا س\\یدنا مس\\یح م\\ردوں میں س\\ے جی اٹھ\\ا ہے اور ج\\و س\\و)م\\ر(گ\\ئے

مس\\یح م\\ردوں میں س\\ے جی اٹھ\\نے وال\\وں میں پہلوٹھ\\ا۔وہی خوش\\خبر ہے۔ اور انجی\\ل مق\\دس )جومس\\یحیوں کی م\\ذہبی کت\\اب ہے( ک\\ا ن\\ام ہے خوش\\خبر کی کت\\اب ہے۔ سیدنا مسیح کی قیامت )جی اٹھنا( ہار قی\\امت ک\ا پیش خیہ ہے۔ مکن ہے ک\وئی یہ کہے کہ چونکہ انسان ہیشہ زندہ رہنا چاہتاہے۔ لہذا یہ من گھڑت عقیدہ بنالیا کہسیدنا مسیح مردوں سے جی اٹھا ہے اور وہ ہار قیامت کا پیش خیہ ہے۔ جیسے

خوب سجھے ہیں جنت کی حقیقت لیکن دل کے سجھانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

لیکن سیدنا مسیح کی قیامت ای\ک ت\واریخی حقیقت ہے۔ جس کے ک\ئیثبوت ہیں۔

اان۱ ۔ جتنے مذہب پرست ہیں۔ وہ سب روح کی بق\\ا کے قائ\\ل ہیں۔ اس پ\ر اان کے پ\\اس ک\\وئی ثب\\وت نہیں۔ اور ای\\ان بغ\\یر ک\\ا ای\\ان ہے۔ لیکن روح کی بق\\ا ک\\ا ثبوت وہم کرتاہے ۔ لیکن مسیحی مذہب میں روح کی بقا ک\\ا ثب\\وت س\\یدنا مس\\یح کے امردوں میں سے جی اٹھنے میں پایا جاتاہے۔ سوال پیدا ہوتاہے۔ کہ اس کا کی\\ا ثب\\وت ہے

امردوں میں سے جی اٹھا ہے؟ کہ سیدنا مسیح ۔ پہلا ثبوت ۔س\\یدنا مس\\یح جعہ کے دن مص\\لوب ہ\\وئے اور یہی دن گ\\ڈ۱

ااس سے اگلے دن شاگرد رومیوں اور یہودیوں کے ڈر کے مارے فرائیڈے کہلاتاہے۔ اور دروازے بن\\د ک\\رکے ان\\در بیٹھ ج\\اتے ہیں۔ اور ہف\\تے کہ پہلے دن )ات\\وار( کے دن س\\یدنا

اان پر ظاہر ہوتےہیں۔ یوحن\\ا ب\اب ااس\\ی دن ج\\و ہفتہ ک\\ا پہلا۱۹آایت ۲۰مسیح " پھ\\ر دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے ۔ یہودیوں کےڈر س\\ےااس اان سے کہا۔ تہ\\ار س\\لامتی ہ\\و" آاکر بیچ میں کھڑا ہوا اور بند تھے۔ سیدنا مسیح اان کے خ\\وف اور بے اعتق\\اد` ک\\ا ب\\ار ب\\ار ذک\\ر پای\\ا وقت وہ بن\\د دروازوں میں تھے۔ جاتاہے۔ تو اگر مردوں میں زندہ ہوجانا ت\\واریخی حقیقت نہیں۔ توی\\ا ت\\و اس بے اعتق\\اد`

کا انجیل مقدس میں ذکر نہ ہوتا اوریا اس قسم کی بے اعتقاد` ہیشہ کے لئے مسیحاانہیں س\\یدنا مس\\یح کے جی اٹھ\\نے ک\\ا کام\\ل کے شاگرد میں موجود رہ\\تی۔ جب ت\\ک اان ک\\ا اردوں میں س\\ے جی اٹھ\\اہے۔ تب اانہ\\وں نے یہ نہ مان\\ا کہ وہ واقعی م\\ یقین نہ ہ\\وا۔ ااس اامید اورای\\ان میں ب\\دل گ\\ئی۔ اس کی وجہ اامید` بے اعتقاد` ، دلیر ، خوف نا

کا مردوں میں سے زندہ ہوجانا ہی ہے۔ " دوسرے دن جو تیار کے بع\\د۶۶تا ۶۲آایت ۲۷۔ دوسرا ثبوت: متی باب ۲

ت اعظم اور فریسیوں نے پیلاطس کے پاس ج\ع ہ\\وکر کہ\ا ۔ مال\\ک ہیں کا دن تھا امام یاد ہے کہ اس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا میں تین دن کے بعد جی اٹھو ں گ\\ا ۔ پس حکم دیجئے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جائے۔ کہیں ایس\\ا نہ ہ\\وآاک\\ر اس\\ے چ\\رالے ج\\ائيں اور لوگ\\وں س\\ے کہہ دیں کہ وہ م\\ردوں میں کہ اس کے ش\\اگرد اا ہو۔ پیلاطس نے ان سے کہا تہ\\ارے سے جی اٹھا اور پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بر پاس پہرے والے ہیں۔جاؤ جہاں ت\ک تم س\\ے ہ\\و س\\کے اس کی نگہب\\انی ک\رو۔ پس وہ

اگ\\ردوپہرے والوں کو ساتھ لے کر گئے اورپتھر پر مہر کرکے قبر کی نگہب\\انی کی ۔ اان کی لاش کس ط\\رح سیدنا مسیح معجزانہ طورپر قبر میں سے زن\\دہ نہیں ہوگ\\ئے۔ ت\\و ااس کے جی اٹھ\\نے س\ے پہلے اس ق\\در ب\ز دل ااس کے ش\\اگرد ت\و قبر سے گم ہوگئی ۔ اانہیں یہ ج\\رات تھے کہ یہودیوں کے ڈر سے دروازے بن\\د ک\\رکے ان\\در بیٹھے ہ\\وئے ہیں۔ کیسے ہوس\\کتی تھی کہ جس ق\\بر پ\\ر س\\رکار مہ\\ر لگی ہ\\وئی ہے اورجس ق\\بر پ\ر رومیارومی ق\\انون میں اگ\ر سپاہیوں کا زبردست پہرہ ہے وہ\\اں س\ے لاش اٹھ\\ا ک\ر لےج\ائیں۔ ااسے س\\زا م\وت ہوس\کتی تھی۔ یہ ق\\رین قی\\اس ہی نہیں سپاہی اپنی ڈیوٹی پر سوجائے تو ہوسکتا کہ جب شاگرد خوفزدہ ہیں ۔ سپاہیوں کو صرف تین دن کے پہرہ پر لگاگیا ہے۔اچرا ااس\\ے ااس\\ے کےش\\اگرد اور سپاہیوں کو یہ بتادیا گیا۔ کہ قبر کی رکھوالی کرو۔ ت\\اکہ تف عق\\ل اور خلاف واقعہ دکھ\\ائ ک\\ر نہ لے ج\\ائیں۔ ایس\\ی ح\\الت میں یہ عین خلا

اچرا کر لے گئے۔ لیکن اص\\ل حقیقت یہ ہےکہ س\\یدنا ااس کی لاش دیتاہے ۔کہ شاگرد امردوں میں سے زندہ ہوگیا۔ مسیح نے فی الواقع

۔ تیسرا ثبوت: اگریہ ف\\رض کرلی\\ا ج\\ائے ۔ کہ س\\یدنا مس\\یح م\\ردوں میں س\\ے۳ نہیں جی اٹھے۔ لیکن اس کے باجود بھی شاگردوں نے یہ مش\ہور کردی\اکہ وہ جی اٹھ\\اآاپ کو دھوکا دی\\ا۔ س\\ارے م\\ذہب کی ہے۔ تو یہ ماننا پڑیگا۔ کہ شاگردوں نے خود اپنے بنیاد اسی دھوکہ پر رکھ د` ۔ اور اسی دھوکہ پر اپنی سار زن\\دگی کی بنی\\اد رکھ ک\\ر

اپنی زندگیاں تک بھی قربان کردیں۔امردے نہیں جی اٹھے تو مس\\یح بھی۱۷تا ۱۶آایت ۱۵کرنتھیوں باب ۱ " اگر

نہیں جی اٹھ\\ا۔ اور اگ\ر مس\یح نہیں جی اٹھ\\ا توہ\ارا ای\ان بے فائ\دہ ہے۔ تم اب ت\ک اپنے گناہوں میں گرفتار ہوبلکہ جو مسیح میں سو)مر( گئے ۔وہ بھی ہلاک ہ\\وئے۔ اگ\\رہمآادمی\\وں س\ے زی\ادہ بدنص\یب ہیں"۔ اامی\د ت\و س\ب ص\رف اس\ی زن\دگی میں مس\یح س\ے

حقیقت یہ ہے۔ کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ چوتھ\\ا ثب\\وت: اگ\\ریہ ف\\رض ک\\رلیں۔ کہ مس\\یح نہیں جی اٹھ\\ا بلکہ ش\\اگردوں۴

اانہیں ایسا معلوم ہوا۔ کہ وہ جی اٹھا ہے۔ تو یہ کی محض ایک خوش اعتقاد` تھی کہ بات بڑ عجیب معلوم ہوتی ہے ۔ کہ سیدنا مسیح کے بار ب\ار ظ\\اہر ہ\\ونے پ\ر بھی بعض

ااس\\ے دیکھ۱۷آایت ۲۸شک کرتے ہیں کہ وہ نہیں جی اٹھا۔ م\\تی ب\\اب اانہ\\وں نے " اورآایت ۱۶کی\\ا۔م\\رقس ب\\اب کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک " انہ\\وں نے یہ۱۳ت\\ا ۱۱:

آاپ آاپ ک\\و دیکھ\\ا ہے یقین نہ کی\\ا۔ اس کے بع\\د آاپ جی\\تے ہیں اس نے س\\ن ک\\ر کہ دوسر صورت میں ان میں س\ے دو ک\\و جب وہ دیہ\\ات کی ط\\رف پی\دل ج\ارہے تھے دکھائی دیئے۔ انہوں نے بھی ج\اکر ب\اقی لوگ\\وں ک\و خ\برد` مگ\ر انہ\وں نے ان ک\ا

آایت ۲۴لوقا ب\اب بھی یقین نہ کیا۔ " جنہ\وں نے رس\\ولوں س\\ے یہ ب\اتیں کہیں۱۲ت\ا ۱۱ اان کے ساتھ کی باقی ع\\ورتیں تھیں وہ مریم مگدلینی اوریوانہ اور یعقوب کی ماں مریم اور

اانکا یقین نہ کیا۔ اس پر پط\\رس اانہوں نے اانہیں کہانی سی معلوم ہوئیں اور مگر یہ باتیں اٹھ کر قبر تک دوڑا گیا اورجھک ک\\ر نظ\\ر کی اوردیکھ\\ا۔کہ ص\\رف کفن ہی کفن ہے

"۴۱ت\ا ۳۸آایت ۲۴اور اس ماجرے سے تعجب کرتا ہوا اپنے گھر چلا گی\\ا" لوق\ا ب\\اب آاپ نے ان سے فرمایا تم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کس لئے تہارے دل میں شک پی\\دا ۔ ہوتے ہیں؟ میرے ہاتھ اور میرے پ\\اؤں دیکھ\\و کہ میں ہی ہ\\وں ۔ مجھے چھ\\وکر دیکھ\\و کی\\ونکہ روح کے گوش\ت اور ہ\\ڈ` نہیں ہ\\وتی جیس\ا مجھ میں دیکھ\\تے ہ\\و۔ او ریہ کہہآاپ نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤ ں دکھائے"۔ جب م\ارے خوش\ی کے ان ک\\و یقین نہ کر آاپ نے ان س\\ے فرمای\\ا کی\\ا تہ\\ارے پ\\اس کچھ کھ\\انے ک\\و آای\\ا اور تعجب ک\\رتے تھے

ااس نوش\\تہ ک\و نہ ج\\انتے تھے جس کے۹آایت ۲۰یوحنا باب ہے ؟ " کی\\ونکہ وہ اب ت\\ک ااس کا مردوں میں سے جی اٹھنا " انہ\وں۱۶ت\ا ۱۳آایت ۲۰ضرور تھا یوحن\ا ب\اب مطابق

نے اس س\\ے کہ\\ا اے خ\\اتون تم کی\\وں روتی ہ\\و؟ اس نے ان س\\ے کہ\\ا اس ل\\ئے کہ میرے مولا کو اٹھالے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ انہیں کہاں رکھا ہے ۔ یہ کہہ کر وہآاپ نے آاپ ہیں۔ می کو کھڑے دیکھا او رنہ پہچان\\ا کہ یہ پیچھے پھر اور سیدنا عیس ا س س\\ے فرمای\\ا اے خ\\اتون تم کی\\وں روتی ہ\\و؟ کس ک\\و ڈھون\\ڈتی ہ\\و۔ اس نے باغب\\انآاپ سے کہا میاں اگر تم نے اس کو یہاں سے اٹھای\ا ہ\\و ت\و مجھے بت\ادے سجھ کر می نے اس سے فرمایا م\\ریم کہ اسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اسے لے جاؤں۔ سیدناعیس

آاپ س\ے ع\\برانی زب\ان میں کہ\\ا رب\\ونی ، یع\\نی اے اس\\تاد۔ یوحن\\ا ب\\اب! اس نے مڑ ک\\ر آاکر صحابہ کرام کو خبرد` کہ میں نے مولا ک\\و دیکھ\\ا۱۸آایت ۲۰ " مریم مگدلینی نے

اان کی بے اعتقاد` کا بار بار ذکر پای\\ا جات\\اہے ۔اور انہوں نے مجھ سے باتیں کہیں۔اان کی خ\\وش اعتق\\اد` کی وجہ س\\ے نہیں امردوں میں س\\ے جی اٹھن\\ا لہذا مسیح کا

ہے ۔ بلکہ ایک تواریخی حقیقت ہے۔

ااس کا ظہور محض ایک دن ہی نہیں ہ\\وا۔ کہ جس میں۵ ۔ پانچواں ثبوت: ااس کا ظہور ایک ہی شخص پ\\ر نہیں ہ\\وا۔ بلکہ وہ دھوکہ ہونے کا امکان ہوسکتا ہے اور

"۳آایت ۱باربار ظاہر ہوتا رہا ۔ یہاں تک کہ چالیس دن تک ظاہر ہوتا رہا ۔ اعال ب\\اب اان پ\ر زن\دہ ظ\\اہر بھی آاپ ک\و ابہت سے ثبوتوں سے اپنے ااس نے دکھ سہنے کے بعد آاتا اورخدا کی بادش\\اہی کی ب\\اتیں کرت\\ا رہ\\ا"۔ اانہیں نظر کیا۔ چنانچہ چالیس دن تک

" پھ\\ر پ\انچ سوس\ے۶آایت ۱۵کرنتھی\\وں ب\اب ۱پھر یہ ظہور بہت س\ارے لوگ\وں پ\ر ہ\\وا۔ زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔ جن میں سے اک\\ثر اب ت\\ک موج\\ود ہیں اور

بعض سوگئے"۔ تو اس کا مردوں میں سے زندہ ہوجانا ایک حقیقت ہے۔ ۔ چھٹا ثبوت: مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا بیان چاروں اناجی\\ل۶

میں پایاجاتاہے۔ جن بیانات میں نہ ت\\و تض\\اد پای\\ا جات\اہے نہ ہی ای\\ک دوس\\رے کے بی\\ان کی نقل پائی جاتی ہے۔ اوربیان\ات میں تض\اد ہ\\و ت\و یہ ث\ابت ہوت\اہے۔ کہ وہ واقعہ جھوٹ\اآای\ا ہ\و۔ لیکن چن\د ہے اور یہ بھی عین مکن ہے کہ ک\وئی واقعہ دراص\ل وق\وع میں نہ آای\\ا ہے۔ ت\\و آادمی مش\\ورہ ک\\رلیں اور مش\\ہور ک\\ردیں۔ کہ وہ واقعہ دراص\\ل وق\\وع میں ای\\ک جھوٹے واقعہ کو سچا ثابت کرنے کےلئے بیان ک\\رنے وال\\وں ک\\و ای\\ک دوس\\رے کے بی\\انآاپس میں مش\\ہور ک\\رکے بیان\\ات لکھ\\نے پ\\ڑینگے کی بہت زی\\ادہ نق\\ل ک\\رنی پ\\ڑے گی۔ اان کے بیان\\ات میں ااس کے چشم دید گ\\واہ ہ\\وں۔ ت\\و لیکن اگر واقعہ سچا ہو۔ اورچار کچھ فرق ضرور ہوگا۔ کوئی ایک خ\\اص ب\\ات کے ب\\ارے میں زي\\ادہ تفص\\یل س\\ے بی\\ان کرے گا۔ لیکن چاروں چشم دید گواہوں کو ضرورت نہیں۔ کہ ای\\ک ہی جگہ بیٹھ ک\\ر۔ بلکہ ایس\\ا ک\\رنے س\\ے واقعہ کے حقیقی ہ\\ونے میں ایک ہی طرح سے واقعہ بیان کرآازادانہ ط\\ورپر حقیقی واقعہ ک\\ا بی\\ان ک\\ریں۔ ت\\و ش\\ک ہوج\\ائے گ\\ا۔ لیکن اگ\\ر چ\\اروں اان کا ف\\رق ہی واقعہ کی س\\چائی ک\\ا ثب\\وت ہوگ\\ا۔ اگرچہ بیانات میں فرق ہونگے۔ لیکن امردوں میں س\ے زن\\دہ ہوج\\انے ک\ا واقعہ ک\\و اپ\نی چاروں انجیل\\وں کے لکھ\\نے وال\\وں نے

آازاد مرض\\ی س\\ے لکھ\\اہے۔ کس\\ی نے س\\ارے واقعہ کی تفص\\یلات بی\\ان ک\\ردیں۔ اپ\\نی کسی مصنف نے کس\ی ب\ات ک\و نظ\\ر ان\داز کردی\ا۔ کس\ی نے واقعہ کےکس\ی خ\اص پہلو پر زوردیا۔ بعض نے عورتوں کا ذکر کیا۔ بعض نے فرشتوں کا بھی ذکر کیا۔ بعض نے شاگردوں پر مسیح کے ظاہر ہونے کا ذکر کیا۔ یہ س\\ار ب\\اتیں اس ب\\ات ک\\ا ثب\\وت ہیں۔ کہ مسیح کا مردوں میں سے زندہ ہوجانا ای\\ک من گھ\\ڑت کہ\\انی نہیں ہے۔ بلکہ

ایک تواریخی حقیقت ہے۔ ۔ ساتواں ثبوت: مسیح کے م\ردوں میں س\ے زن\دہ ہوج\انے کے بع\د ش\اگرد۷

اان کی س\\ار من\\اد` س\\یدنا مس\\یح ک\\ا م\\ردوں میں س\\ے بے حد دلیر بن جاتے ہیں۔ اوراان کی زن\دگی ک\ا تج\\ربہ تھ\\ا۔ زندہ ہوجانا ہی بن جاتی ہے ۔ ت\\ویہ ای\ک حقیقت تھی ۔ اان کی زندگی تبدیل کرد`۔ مناد` کےلئے دلیر بنادیا۔ اس ت\\واریخی حقیقت جس نے اان کی زندگیوں پر ایسا اثر ہوا کہ اسی کی من\\اد` ک\\رتے ک\\رتے اپ\\نی زن\\دگیاں بھی کا قربان کردیں۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر سیدنا مسیح م\ردوں میں س\ے زن\دہ ہوگ\ئے ت\و

قی\\امت ک\\ا پیش خیہ ہے۔ہیں اس س\\ے کی\\ا فائ\\دہ ہے؟ مس\\یح کی قی\\امت ہ\\ار " لیکن فی الواقع سیدنا مس\\یح م\\ردوں میں س\\ے جی۲۲تا ۲۰آایت ۱۵کرنتھیوں باب ۱

آادمی کے اٹھے ہیں اور ج\\\و س\\\وگئے ہیں ان میں پہلا پھ\\\ل ہ\\\وئے ۔ کی\\\ونکہ کہ جب آائی۔ آادمی ہی کے س\\\بب س\\\ے م\\\ردوں کی قی\\\امت بھی آائی ت\\\و س\\\بب س\\\ے م\\\وت می مس\\یح میں س\\ب زن\\دہ ک\\ئے آادم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی سیدنا عیس اورجیسے

"۔ موت ای\ک حقیقت ہے ۔ وہ م\ردوں میں س\ے جی اٹھ\\نے وال\\وں میں پہل\وجائیں گے ااس ٹھا ۔ انجیل مقدس میں کہلاتاہے ۔ جس کا ص\\اف مطلب یہ ہے کہ وہ پہلا ہے اور کے بعدباقی انسان ہے جو زندہ ہو جائیں گے۔ انسانیت کی دائی زن\\دگی کی طبعی خواہش کی تکیل سیدنا مسیح کی قیامت )دوبارہ زندہ ہوجانے (میں دکھ\\ائی دی\\تی

م کی\\ا ہے۔ اور صرف سیدنا مسیح ہی ہے۔ جس نے مردوں میں سے زندہ ہ\\ونے ک\\ا دع\\وہے۔

ان مذکورہ بالا دعوؤں کی وجہ سے وہ لاثانی ہے۔

پانچواں بابپانچواں بابمے ک\ئے۔جن ک\\ا ذک\ر ااس نے لاثانی قسم کی تعلیم د`۔ اور لاث\انی ہی دع\\وااس کا چ\\ال چلن لاث\انی تھ\\ا۔ اور ج\و تعلیم گذشتہ صفحات میں درج کردیا گیا ہے۔ ااس نے مجس\\م خ\\دا اان کا ثبوت پیش کیا۔ اگ\\ر م کئے اپنے چال چلن سے د` اور دعوم کیا ۔ تو اپنے پاکیزہ چ\\ال چلن س\\ے یہ ثب\\وت بھی پیش کردی\\ا۔ کہ خ\\دا ہونے کا دعو کیسا پاک ہے۔اپنی محبت سے خدا کی محبت کا ثبوت پیش کیا ۔ اگرنج\\ات دہن\\دہم کیا۔ تو اپنی زندگی سے ثبوت دی\اکہ وہ خ\ود ہ\ر ط\رح س\ے گن\اہوں س\ے ہونے کا دعو

پاک ہے۔ااس نے یہ تعلیم د` جیس\\\ے میں نے تم س\\\ے محبت کی۔ تم بھی۱ ۔ اگ\\\ر

" اوراگ\\ر یہ کہ\\ا کہ میں تہ\\ارے۳۴" ۱۳ای\\ک دوس\\رے س\\ے محبت رکھ\\و ۔ یوحن\\ا ااس۲۷ : ۲۲درمی\\ان خ\\دمت ک\\رنے والے کی مانن\\د ہ\\وں۔ لوق\\ا " ت\\و س\\یدنا مس\\یح نے

" عی\\د فس\\ح س\\ے پہلے جب۲ت\\ا ۱" ۱۳یہوداہ اسکریوتی سےبھی محبت رکھی۔ یوحنا آاپہنچا ہے کہ دنیا سے رخص\\ت ہ\\وکر پروردگ\\ار می نے جان لیا کہ میرا وہ وقت سیدنا عیس کے پاس جاؤں ت\\و اپ\\نے ا ن لوگ\\وں س\\ے ج\\و دنی\\ا میں تھے جیس\\ی محبت رکھ\\تے تھے آاخر تک محبت رکھتے رہے ۔ اور جب ابلیس شعون کے بی\\ٹے یہ\\ودہ اس\\کریوتی کے

آا پ کو پکڑوائے ااس ش\\اگرد کے پ\\اؤں دھ\\وئےدل میں ڈال چکا تھا کہ ااس نے " ت\\و جس کے متعلق وہ یہ جانتا تھاکہ مجھے پکڑوائے گا۔

۔ اگریہ تعلیم د` تھی کہ دشنوں سے پیار کرو لعنت کرنے وال\\وں کےل\\ئے۲ " سیدنا مسیح نے کہا۔اے پروردگار انہیں معاف کردئیجئے۳۴: ۲۳برکت چاہو تو لوقا

کیکیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔ جہ\\اں محبت ہ\\وگی وہ\\اں مع\\اف کردی\\نے " پس جب مجھ م\\ولا اور اس\\تاد نے تہ\\ارے۱۵ت\\ا ۱۴: ۱۳ط\\بیعت بھی ہ\\وگی۔ یوحن\\ا

پاؤں دھوئے تو تم پر بھی ف\\رض ہے کہ ای\\ک دوس\\رے کے پ\اؤں دھوی\ا ک\\رو۔کی\\ونکہ میں نے تم ک\\و ای\\ک ن\\ونہ دکھای\\ا ہے کہ جیس\\ا میں نے تہ\\ارے س\\اتھ کی\\ا ہے تم بھی

"کیاکرو۔۔ سیدنا مسیح نے اپنی پاکیزہ زندگی کا ثبوت پیش کیا۔۳ ب\اب۸۔ دش\نوں کے س\امنے کھ\\ڑے ہ\\وکر انہیں چیلنج کی\ا اورکہ\ا ۔یوحن\ا ۵

" تم میں سے کون مجھ پ\ر گن\اہ ث\ابت کرت\اہے۔ اگ\ر میں س\چ بولت\اہوں ت\و م\یرا۴۶آایت اا دوس\\ت آادمی میں خوبی\\اں اور خامی\\اں ہ\\وتی ہیں۔ عوم\\ یقین کی\\وں نہیں ک\\رتے " ہ\\ر دوست کی کیوں کو نظر انداز کردیتاہے اور دشن کی خوبیوں کو نظر ان\\داز کردیت\\ا ہے اور دوست کی خوبیوں کی ذکر کرتاہے اور دشن کی کیوں کا ذک\\ر کرت\\اہے۔ ت\\و اگر کوئی دوست اپنے دوست کی خوبیوں کا بیان کرے۔ تو اس سے وہ دوست بےااس کی کسی کی کو بی\\ان نہ کرس\\کے قصور ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن اگر دشن بھی ااس کی بے گناہ زندگی کا ثبوت ہوگا۔ سیدنا مسیح کی ایس\\ی ہی پ\\اکیزہ زن\\دگی تو یہ

تھی۔ کہ دشن بھی اس پر کوئی گناہ ثابت نہ کرسکے۔ ااس زمانے کے سیدنا مسیح کے بدترین دشن یہود` )مذہبی رہن\\ا( اس پ\\ر

اجرم ثابت نہ کرسکے۔ )لوقا آاپ۴تا ۱: ۲۳کوئی (پھر ان کی س\\ار ج\\اعت اٹھ ک\\ر آاپ پر الزام لگانا شروع کیا کہ اس\\ے ہم نے کو پیلاطس کے پاس لے گئی۔اور انہوں نے آاپ ک\\و مس\\یح اپنی قوم کو بہکاتے اور قیصر کو خراج دینے س\\ے من\\ع ک\\رتے اور اپ\\نے آاپ نے آاپ سے پوچھ\\ا کی\\ا تم یہودی\وں کے بادش\ا ہ ہ\\و؟ بادشاہ کہتے پایا۔پیلاطس نے اس سے فرمایا : تم خود کہتے ہو۔پیلاطس نے امام اعظم اور عام لوگوں س\\ے کہ\\ا میں

۔"اس شخص میں کچھ قصور نہیں پاتا

ااس پ\\ر ااس زمانے کہ مذہبی رہنا جو سیدنا مس\\یح کے ب\\دترین دش\\ن تھے۔ کوئی جرم ثابت نہ کرسکے۔

ااس زم\\\انے کی رومی حک\\\ومت کے دوبادش\\\اہ پیلاطس اور ہ\\\یرودیس س\\\یدنا " پھ\\ر پیلاطس نے ام\ام اعظم اور۱۵ت\ا ۱۳: ۲۳مسیح کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ لوق\ا

سرداروں اور عام لوگوں کو جع کرکے ۔ ان سے کہا کہ تم اس شخص کو لوگ\\وں ک\\ا بہکانے والا ٹھہ\را ک\ر م\یرے پ\اس لائے ہ\\و اور دیکھ\\و میں نے تہ\ارے س\امنے ہی اس کی تحقیقات کی مگر جن باتوں کا الزام تم اس پ\\ر لگ\\اتے ہ\\و ان کی نس\\بت نہ میں نے اس میں کچھ قص\ور پای\ا ۔ اور نہ ہ\\یرودیس نے کی\\ونکہ اس نے اس\ے ہ\ارے پ\اس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قت\\ل کے

۔لائق ٹھہرتا ب۔ وہ دون\\و چ\\ور ج\\و ای\\ک س\\یدنا مس\\یح کے دہ\\نے اور دوس\\را ب\\ائیں ہ\\اتھ

تا۳۹: ۲۳کو بے قصور ٹھہراتے ہیں ۔ لوقا صلیب پر لٹک رہا تھا۔ وہ بھی سیدنا مسیح آاپ ک\\و ی\\و ں طعنہ۴۱ " پھر جو بدکار صلیب پ\ر لٹک\ائے گ\\ئے تھے ان میں س\\ے ای\\ک

آاپ کو اور ہیں بچاؤ۔ مگر دوسرے نے اسے دینے لگا کہ کیا تم مسیح نہیں؟ تو اپنے جھ\\ڑک ک\\ر ج\\واب دی\\ا کہ تم پروردگ\\ار س\\ے بھی نہیں ڈرتے ح\\الانکہ اس\\ی س\\زا میں گرفتار ہو؟ اور ہار سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپ\\نے ک\\اموں کاب\\دلہ پ\\ارہے ہیں لیکن اس

"۔نے کوئی بے جا کام نہیں کیا ج۔ یہوداہ اسکریوتی جس نے دھوکا دے کر سیدنا مسیح کو گرفتار کروادیا۔

" جب۵ت\ا ۳" ۲۷ہ\\ونے کی گ\\واہی د` ۔م\\تی ااس نے بھی س\\یدنا مس\\یح کے بے گن\\اہ آاپ مجرم ٹھہرائے گئے تو پچھتای\\ا اور وہ آاپ کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ تیس دینار امام اعظم اور بزرگوں کے پاس واپس لاکر کہا ۔میں نے گناہ کیاکہ بے قصور

کو قتل کے لئے پکڑوای\ا انہ\\وں نے ک\ا ہیں کی\\ا؟ تم ج\انو ۔ اور وہ دین\\اروں ک\و مق\\دسآاپ کو پھانسی د` میں پھینک کر چلا گیا اور جاکر اپنے

۔ رومی صوبہ دار جو بوقت سیدنا مسیح کے مصلوب ہونے کے وہاں موجود۲ " یہ م\\اجرا دیکھ ک\\ر ص\\وبہ دار نے خ\دا کی تجی\\د کی اورکہ\\ا بے۴۷: ۲۳تھ\\ا۔ لوق\ا

آادمی راستباز تھا۔ شک یہ ااس زم\\انہ کے پس جب سیدنا مسیح کا ایس\\ا لاث\\انی چ\\ال چلن تھ\\اکہ نہ ت\\و ااس زم\\انہ کی رومی حک\\ومت کے بادش\\اہ پیلاطس اور م\\ذہبی رہن\\ا یہ\\ود` اور نہ ہی

ااس پر الزام لگاسکے تو وہ سچ مچ بے گناہ تھا۔ ہیرودیس تو مسیحیت کی ترقی کا واحد راز سیدنا مسیح کی لاثانی شخصیت ہے۔

چھٹا بابچھٹا باب اس کت\\اب کے پڑھ\\نے وال\\وں س\\ے یہ اپی\\ل ہے کہ ہ\\ر ط\\رح کے تعص\\ب ک\\وااس کے دع\وؤں اور چ\ال چلن پ\ر غ\\ور بالائے ط\\اق رکھ ک\ر س\یدنا مس\\یح کی تعلیم اورااسے قبول کریں۔ اس کے متعلق مزید واقفیت آازمائیں جو بہتر ہے کریں۔ اورہر چیز کو حاصل کرنے کیلئے انجیل مقدس کو پڑھیں ۔ جوہر زب\ان میں نہ\\ایت ہی سس\تے دام\وںاان کی وس\\اطت س\\ے م\\ل س\\کتی ہے۔ انجی\\ل مق\\دس ک\\و پر جہاں کہیں مسیحی ہیں۔ آاپ کے دل میں چک\\ائے اور مزی\\د پڑھیں اورساتھ خدا س\\ے دع\\ا ک\\ریں۔ کہ وہ اپن\\ا ن\\ور

ااس س\\ے خ\\ط وکت\\ابت تب ہذا کی خ\\دمت درک\\ارہو۔ ت\\و واقفیت کیلئے اگرمصنف کتاتث خوشی ہوگا۔ آاپ کی روحانی مدد کرنا میرے لئے باع کریں۔